تین سو سے پانچ سو ایکڑ تک کی زمین جو گوردوارہ سے لے کر بارڈر ایریا تک جاتی ہے درکار ہوگی۔ اس علاقے میں زمین کے نرخ ویسے بھی نہایت کم ہیں۔ حکومت زمین خرید کر اس کو اطراف سے بلند دیواروں اور باڑوں سے سِیل کرے اور ایک داخلی دروازہ پاکستانی سکھ نام لیواؤں اور ریاستی مشینری کے داخلے کو چھوڑ دیا جائے۔ جبکہ صدر دروزاہ اس مقام پر تعمیر کیا جائے جہاں پر گردوراہ کی بالکل سیدھ میں بارڈر تک وسیع ون وے تعمیر کی جائے۔ راستے میں دو مین پل تعمیر کیے جائیں گے ایک بئیں نالہ پر دوسرا نیم مردہ راوی پر۔ دونوں پل تعمیر کا حسین امتزاج اور یادگار ہوں۔ ائیریا کی آؤٹر سکیورٹی پاک فوج جبکہ اندرونی پاکستان رینجرز کے خصوصی تربیت یافتہ سکواڈ کے سپرد کی جائے۔
بقیہ رقبہ میں ایک طرف پنجاب کی ثقافت کو ایک میلے کا روپ دیا جائے۔ جہاں پر پنجاب سمیت پاکستان بھر کی مشہور پکوانوں، مصنوعات کی ایک ایک مستند برانچ قائم کرنے کی اجازت ہو اور کوالٹی کنٹرول یونٹ قائم کی جائے۔
ساتھ ہی ساتھ پنجاب کی ثقافت کو مختلف انداز میں نمایاں کیا جائے۔ دوسری طرف مشہور ہوٹلز اور موٹلز کی ایک ایک برانچ قائم کرنے کے لیے اراضی لیز پر فراہم کی جائے۔ جہاں روز مرہ زندگی کے ہر طبقے کی پہنچ کی تمام بنیادی ضروریات میسر ہوں۔ جہاں پر رہائش اور طعام کے لیے سرکاری اور نجی کمپلیکس بنائے جائیں اور نرخ انٹرنیشنل سیاحت اور انفراسٹرکچر کو بنیاد بنا کر مقرر کیے جائیں۔
ایک وقت میں پچاس ہزار لوگوں کے لیے بندوبست کیا جائے۔
اطراف اور بقیہ علاقے کو سبزہ اور پھولوں اور دیسی پودوں سے مزین کیا جائے۔ کہ اٹریکشن میں جگہ کی خوبصورتی ایک اصطلاح کی صورت اختیار کرجائے۔ اس ایریا میں منی ایکسچینج قائم کی جائیں جو مکمل کا طور پر سرکاری کنٹرول میں ہوں۔ انٹر نیشنل میڈیا، ملکی میڈیا سمیت بھارتی میڈیا کو رسائی دی جائے۔
پاکستان میں سے جو لوگ اس جگہ کی سیاحت کا شوق رکھتے ہوں مناسب جانچ پڑتال کے بعد جانے کی اجازت ہو۔
ساتھ ہی ساتھ ملکی ایجنسیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک بھی اس ایریا میں موجود ہو۔
صدر دروازے پر ایف آئی اے، آئی ایس آئی سمیت رینجرز داخلی اور خارجی راستوں پر کڑی نگرانی کریں۔ داخلے کی شرط انٹرنیشنل پاسپورٹ ہونی چاہیے۔ مناسب سامان کے ساتھ ساتھ ٹھہرنے کی کم از کم مدت 7 دن ہو۔ ایک اجازت نامہ جس پر حکومت ِ پاکستان کی مہر اور ٹھہرنے کی معیاد درج ہو زائرین کے پاس ہمہ وقت موجود ہو۔ زائرین مناسب نرخوں پر ہر چیز خرید سکنے کے مجاز ہوں۔ گرد و راہ کے اندر سکھ کمیونٹی کو مکمل مذہبی آزادی ہو۔ وہ اپنی مذہبی رسومات اپنی مرضی سے ادا کرنے کے مجاز ہوں۔
زائرین کے لیے خصوصی قوانین اور لائحہ عمل تیار کیا جائے جن میں سکھ نمائندوں کی آرا کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
دیکھنے کو یہ کافی کوفت زدہ کام ہے لیکن اس مملکت کی بقا اور دنیا میں اس کے تشخص کی زیست بڑھانے کے لیے یہ فیصلے ضروری ہیں۔ دنیا بھر سے لاکھوں لوگ بغداد، بخارا، دمشق، قاہرہ، ویٹی کن سٹی، بیت المقدس اور حرمین شریفین کی زیارت کو سفر کرتے ہیں۔ اسلام تلوار سے نافذ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کی بقا کو اخلاقیات اور سماجیات کی بڑھوتری کی کھاد اشد ضروری ہے۔
جس طرح ہم لوگ حرمین شریفین میں اپنی مکمل مذہبی آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں اسی طرح یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم سکھ یاتریوں کو ان کے مذہب پر چھوڑ دیں۔ ہمارے علماء کرام بھی اس بات کی تائید کریں گے کہ مذہبی آزادی لازم و ملزوم ہے۔
اس سے آنے والا ریونیو ریاست کے لیے دیرپا اور وقت گزرنے کے ساتھ سود مند ثابت ہوگا۔ یہ ہمارے حصے کا کام ہے اگر ہم شروع کریں گے تو بھارت سرکار مجبور ہوجائے گی کیونکہ وہ دس کروڑ سکھوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا نقصان بخوبی جانتے ہیں۔ کشمیر کے حل کی یہ وہ پہلی اینٹ ثابت ہوگی۔