ازمنہ رفتہ کے سیاست داں آغازِ اقتدار میں کبھی بھی بد قسمت اور کَج فہم نہیں رہے۔ یہ ہمیشہ رفتہ رفتہ انجام بجانب رواں ہوئے۔ شروع شروع میں سب نے خوب پذیرائی سمیٹی اور زمانے کی آنکھ کا تارہ بنے۔ جب بھی کوئی سیاست دان اقتدارِ اعلیٰ پہ فائز ہوا تو وہ اپنے منبرِ اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے تابوت کی لکڑیاں اور کیل بھی ساتھ لایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان صاحب کتنی جلدی اپنا تابوت تیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات قابل رحم و قابلِ ذکر ہے کہ اتنے کیل خود حاکمِ وقت نہیں ٹھونکتا جتنے اس کے حواری اور وفادار ٹھونک دیتے ہیں۔ نئی نویلی سرکار جسے ابھی اقتدار میں آئے چند ماہ بھی نہیں ہوئے ابھی سے سکینڈلز کا شکار ہو چکی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ذیل کے محرکات دکھائی دیں گے۔
پہلے ذکر کرتے ہیں مشرف صاحب کا جن کے تابوت میں ٹھکنے والے کیلوں میں، لال مسجد، شوکت عزیز، نواب اکبر بگٹی، امریکی وفاداریاں، عدلیہ پر قدغن، خود پر حد سے اعتماد سمیت میڈیا کی آزادی شامل ہیں۔ جس کو موصوف نے اپنی زبانی بیان فرمایا کہ یہ میرے تابوت کا وہ کیل تھا جس نے میرے سیاسی اور عسکری وجود کو برہنہ کردیا۔ رہی سہی کسر محترمہ کی شہادت نے نکال دی۔ خود کو نڈر کمانڈو کہنے اور سمجھنے والے اپنے وقت کے سپہ سالار این آر او سمیت لا تعداد ملامتیں سمیٹنے کے بعد اب شدید علیل ہیں۔ علالت کی وجہ ان کا عشق پرور مزاج اور رنگینیوں کا شوق بتایا جاتا ہے۔
زرداری صاحب کی طرف آئیں تو مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور اقتدار کو پہلی اور آخری بار مالِ غنیمت جان کر کھل کھیلے۔ عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنا، حد سے زیادہ بدنام ہونا، ایل این جی، رینٹل پاور پلانٹس، بھتہ خوری، گینگ وار، دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ، شاہانہ مزاج، عملی سیاست سے نا بلد ہونا، مفاد پرست سیاستدانوں کا ٹولہ اور مہنگائی کے کیل نے ان کا سیاسی تابوت تیار کیا۔ پھر میاں نواز شریف، شہباز شریف آئے۔ ان کے سیاسی تابوت میں انا پرستی، من پسند لوگوں کو نوازنا، ہیرا پھیری، غلط مشیروں، نندی پور پاور پلانٹس، آشیانہ اقبال، صاف پانی، قرضوں کے انبار، غیر جمہوری رویہ، دہشت گردی کی روک تھام میں عدم دلچسپی، عمران خان، دھاندلی، فوج سے غیر ضروری چڑ، ڈان لیکس، ناموسِ رسالت صلی الله عليه وآلہ وسلم قانون سے چھیڑ چھاڑ اور پانامہ لیکس کے آخری کیل نے ان کے تابوت کو مکمل کردیا۔
پنجاب پر راج کرنے والی سیاسی جماعت نے منہ کی کھائی۔ اور مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیادت جس کسمپرسی کا اب شکار ہے اسے بیان کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
اب آتے ہیں حکمران جماعت کی طرف، اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا کیل آسیہ بی بی سے متعلق چیف جسٹس کے فیصلے کے بعد کی صورت حال نے ٹھونکا۔ مہنگائی، میڈیا ہاؤسز کے جائز و ناجائز واجبات کی ادائیگی میں تاخیر، اسرائیلی طیارے کی آمد کی افواہ اور اسرائیل کے حق میں ریزرو سیٹ پر براجمان ایم این اے کی قرارداد، پنجاب کا سست وزیر اعلیٰ نے رہی سہی کسر نکال دی۔ بے لگام گورنرز اور ناموسِ رسالت مآب صلی الله عليه وآلہ وسلم کے تنازعے کے سیاسی حل نے تابوت کی تیاری میں پیش رفت دکھائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کا تابوت مزید کتنے کیل برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انسانوں اور جانوروں میں بنیادی فرق نظریے اور آدھرش کا ہوتا ہے۔ جب کوئی بھینس کسی سرسبز کھیت کے قریب سے گزرتی ہے تو وہ سمجھتی ہے یہ چارہ مجھے کھانا ہے جیسے تیسے منہ ضرور مارتی ہے۔ اس کے نظریے میں تبدیلی ممکن نہیں جبکہ انسان کے نظریے میں لچک ہے وہ ایسے کہ ایک چور جب چوری کے لئے جاتا ہے تو وہ یہ سوچنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے کہ مجھے یہ چیز چرانی چاہیے یا نہیں۔
خان صاحب کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کہیں ان کے ممبران اور کابینہ کے لوگ نت نئے پکھنڈ اور شوشے سے ان کا سیاسی تابوت تو تیار نہیں کررہے۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا شتر بے مہار کی طرح پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی بنا پر جعلی اور مبہم خبریں چلا کر نجانے کون سے صحافتی اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ کسی اہلِ خراب نے فرمایا تھا کہ قلم فروش صحافی جسم فروش طوائف سے بھی زیادہ بد کردار ہوتا ہے۔ اس مردم آزار کا نام لینا اچھی بات نہیں لیکن ہمارے میڈیا ہاؤسز ریاست کو زچ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش میں لگے ہیں۔ کیا پہلی حکومتوں میں بھی میڈیا ہاؤسز ایسے ہی کام کرتے تھے؟
خان صاحب اگر آپ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے پر مضر ہیں تو آپ خلفائے راشدین کے مروجہ طریقوں کو پڑھیں اور اپنائیں۔ جو اصول آپ کو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ اور عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن الحکم رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی اور طرز حکومت سے ملیں گے وہ آپ کو مغرب، اسرائیل، امریکہ یا کسی غیر مسلم ریاست سے میسر نہیں آنے والے۔ خلیفہ کے طور پر صرف ڈھائی سال میں وہ تاریخ رقم کی جو آنے والی نسلوں میں امر ہوگئی۔ آپ کو تو پانچ سال ملے ہیں۔ اور آخر میں یہ بھی کہ اگر خان صاحب جیسے کیسے اسرائیل کو ریاست تسلیم بھی کروا لیتے ہیں تو پاکستانیوں کے دل میں اسرائیل کے لیے نفرت کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے گی۔ جس کا نقصان اسلامی اتحاد کو جو ہوگا سو ہوگا خان صاحب پر مرزا غالب کا یہ شعر بہت موافق آئے گا۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے عمران
شرم تم کو مگر نہیں آتی