1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. وزیر مینشن

وزیر مینشن

کوئین میری ویدر ٹاور کے پڑوس میں واقع ایم اے جناح روڈ پر شمال کی جانب چلتے جائیں تو بائیں کنارے پر میمن مسجد آجائے گی۔ میمن مسجد کے عقبی حصے میں کپڑا مارکیٹ کے بیچوں بیچ چلتے چلتے تھوڑے فاصلے پر آپ کو ایک بے نام سی تین منزلہ عمارت دکھائی دے گی۔ جس کی حد ایک لوہے کے جنگلے کی باڑ لگا کر بنائی گئی ہے۔ مزید آسانی کے لیے جس جگہ آپ کو گٹر کا سب سے زیادہ پانی جمع شدہ ملے جھٹ سے نظر دوڑائیں آپ وزیر مینشن کے پاس موجود ہوں گے۔ جی ہاں جہاں بانیِ پاکستان کی ولادت ہوئی وہی وزیر مینشن۔ اول تو وہاں کوئی شخص موجود نہیں ہوگا یا عمارت کا سٹاف کسی ضروری کام سے کہیں گیا ہوا ہوگا۔ اگر قسمت سے مل بھی جائے تو بعید نہیں کہ آپ کو دیکھ کر وہ نظریں چرا لے۔ اور کوشش کرے کہ کسی بھی طرح آپ اندر جانے کا ارادہ تَرک کردیں۔ لیکن اگر آپ ضدی اور قائد پسند واقع ہوئے ہیں تو ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ آپ کو اپنا شناختی کارڈ دکھانا ہوگا اس کے بعد آپ گراؤنڈ فلور میں گھس سکتے ہیں جو کہ ایک لائبریری کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ قائد کے زیر استعمال اور دیگر قیمتی کتابوں کو کمال نفاست سے قفل زدہ کیا گیا ہے۔ کہ کہیں کوئی اہلِ خراب ان کو پڑھ نہ لے۔
بقول عملے کے سیکیورٹی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ لائبریری نجانے کب سے بند ہے اور جنہوں نے یہ حکم صادر فرمایا ہے۔ وہ بھی ظاہر ہے قائد کے خیر خواہ ہی ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ اپنی مصروفیات کے سبب یہاں آ نہیں پاتے ہوں گے۔ اب ہرکارہ آپ کو پہلی منزل پر لے جائے گا۔ جہاں وہ تمام نوادرات بخوبی سجائے گئے ہیں جو قائد کے مستعمل رہے۔ جوتے، کپڑے، سٹیمپیں، لیٹر پیڈ، ڈاک ٹکٹ، قلم، ڈاک لفافے، کھانے میں استعمال ہونے والے چینی کے قیمتی برتن، چھڑی، ڈائننگ ٹیبل، اور دیگر اشیاء نمائش کے لیے موجود ہیں۔
کچھ دیر بعد اس کی طبعیت بوجھل ہونے لگ جائے گی تو یہ اشارہ ہوگا کہ حضور آپ کی عقیدت بجا لیکن ابھی ایک منزل اور رہتی ہے۔ جس کے بعد آپ اس کے ساتھ دوسری منزل پر پہنچ جائیں گے۔ پہلے کمرے میں قانون کی کتابوں سے بھری ایک بڑی الماری محفوظ ہے۔ اور کچھ صوفے۔ جبکہ آخری کونے میں ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جہاں پر دروغ بہ گردن راوی قائداعظمؒ کی پیدائش ہوئی۔ یہاں کچھ دیر رک کر میں نے 1876 میں جانے کی بہت کوشش کی لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ شاید ہمارا خیال اب اتنا پاکیزہ نہیں رہا۔
اس سے اوپرجانا منع ہے کیونکہ اوپر سیکیورٹی سٹاف اور کیر ٹیکرز کی رہائش اور سٹورز ہیں۔ اس سارے عمل میں تصویریں اتارنا سختی سے منع ہے۔ کہ کہیں کوئی قائد کو اپنے موبائل کے کیمرے میں قید نہ کر لے۔ اس کی کڑی نگرانی بھی ہوتی ہے یوں تو پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اپنے بانیِ ملت کے رہن سہن اور طرزِ زندگی کو نقل کرنے پر سختی سے پابندی عائد ہے۔
اب وہ کہے گا آپ جا سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا حضرت یہاں کوئی آتا بھی ہے یا نہیں۔ کہنے لگے اول تو 95 فی صد سے زائد قائد پسندوں کو اس کا علم بھی نہیں ہے اور ہے بھی تو اتنی جہد کون کرتا ہے۔ کبھی کبھار کسی قائد کے مداح کو جوش آجاتا ہے تو ٹپک پڑتا ہے۔ یا پھر سکول یا کالجوں کے بچے آتے ہیں کبھی کبھار وزٹ کے لیے۔
گردو نواح کی ابتری سے اندازہ ہورہا تھا کہ ایک لمبے سمے سے کسی سرکاری عہدیدار نے یہاں آ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کیا۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد سوچا اب بہت ہوگیا ایسا نہ ہو کہ حضرت کی تند طبعیت کے سبب پِٹ جاؤں اب چلنا چاہئے۔
راستے میں چلتے چلتے ایسے ہی کانوں میں آواز پڑی تو پیچھے جیسے اک سایہ میرا پیچھا کررہا ہو۔ میں نے گھبرا کے دیکھا تو سوائے ایک خفیف آواز کے کچھ نہ تھا جو بدستور آرہی تھی۔
یہ قائداعظمؒ تھے جو شاید عالمِ ارواح میں نواب لیاقت علی خان شہید صاحب سے محو گفتگو تھے۔ اور کہہ رہے تھے کہ "وہ دیکھو ایک سر پھرا پھر یہاں آن ٹپکا۔ ان کو کوئی کاج کرنے کو ہی نہیں ہے۔ "میں نے حیرت سے قدم روکے اور سرگوشی کو سننے کی کوشش کی۔ تو قائد علامہ صاحب کی محفل میں بیٹھے کہہ رہے تھے کہ "اب اسے گرا دینا چاہئے "۔ علامہ صاحب بولے "کسے؟ کس کے بارے میں فرما رہے ہیں آپ؟ "قائد پھر گویا ہوئے " وزیر مینشن کو".
علامہ صاحب نے پوچھا "کیوں؟ یہ تو آپ کے چاہنے والوں کے لیے عقیدت گاہ ہے آپ کیوں اسے گرانا چاہتے ہو۔ " قائد نے گردن نیچے کرتے ہوئے فرمایا "آہستہ بولو وہ بھی سن رہا ہے۔ آپ کو یاد ہے جب میری ایمبولینس لیٹ ہوئی تھی تو میں بسترِ مرگ پہ پڑا کیا سوچ رہا تھا۔ علامہ حیرت سے " کیا سوچ رہے تھے؟ " لمبی سی آہ بھرتے ہوئے بولے "میں سوچ رہا تھا کہ اب میری قوم خود مختار ہوگئی ہے اب مجھے چلنا چاہئے۔ مرے بچے یہ ملک سنبھالنے لائق ہو گئے ہیں۔ اب میرا یہاں کوئی کام نہیں ہے۔ کیوں کہ انہیں تو آگے ہی جانا ہے۔ تبھی میں نے مزید مہلت نہیں مانگی۔ "
میں ایک بُت کی طرح ساکت یہ گفت وشنید سن رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ نیچے بھی دیکھ رہا تھا کہ شاید زمین مجھے جگہ دے اور میں اس میں چھپ جاؤں۔
بحثیتِ قوم ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ ہم لوگ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اپنے محسنوں اور مسیحاؤں کو بھول چکے ہیں۔ پہلے تو پی ٹی وی پر ملی نغمے سن کر اور گا کر قائد کے احسانات کا بدلہ اتارا کرتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ اس میں جدت لائی گئی ہے۔ اب یہ کار ہائے نمایاں ہم شاندار پوسٹس، پروفائل پکچرز، لمبے چوڑے بیانات اور عقیدت مندی کے لب و لہجے سے انجام دیتے ہیں۔ کسی کو شخصیت، تعلیمات، اور مقاصد سے کوئی سروکار نہیں۔ لائبریری، کتابیں تو موجود ہیں پر پڑھنے والا کوئی نہیں۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر میں کل دس بارہ عقیدت مند چھانٹ کر نکلتے ہیں جو کبھی کبھار قائد کے گھر آئیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اس مردِ مومن کے گھر کو آباد کریں۔ حکمرانوں، اشرافیہ، خلائی مخلوق سمیت تمام ریاست کے ٹھیکیدار اس عمارت سے یکسر غافل اپنی موج میں گم ہیں۔

عامر ظہور سرگانہ

Aamir Zahoor

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔