آج واٹس اپ پہ مجھے ایک ویڈیو کلپ موصول ہوئی جس میں دو ڈاکٹرز حضرات اپنے گھر میں آپریشن تھیٹر بنا کر غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے گردے کا ٹرانسپلا نٹ کرتے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوئے، کچھ خبروں کے مطابق ڈونر کو اغوا کر کے زبردستی گردہ نکالا گیا اور بعض کے مطابق ڈونر نے اپنی مرضی سے پیسوں کی عوض اپنا گردہ فروخت کیا، میں نے جب یہ ویڈیو آگے فارورڈ کی تو میرے بڑے ماموں کا اسرار تھا کہہ مجھے ڈاکٹروں کی اور اس دل دہلا دینے والی خبر کے بارے میں ضرور لکھنا چاہیے۔ قارئین ہم میں شائد ہی کوئی ایسا خوش نصیب انسان ہو جس کا واسطہ ڈاکٹرز سے نہ پڑتا ہو، جس فضا میں ہم سانس لیتے ہیں، جو خوراک ہم کھا رہے ہیں، جو پانی ہمیں پینے کے لیے مُیسر ہے جس طرح کے رہائشی علاقوں میں ہم راہ رہے ہیں یہ سب بیماریوں اور تکلیفوں کے گڑھ ہیں، فضا میں حد درجے کی آلودگی پائی جاتی ہے ، ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 80 ہزار لوگ فضا میں آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں، پانی کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 2,50,000 ہزار تو صرف بچے مضر صحت پانی پینے کی وجہ سے موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں بڑوں کی گنتی اس کے علاوہ ہے، سبزیوں کی پیداوار بڑھانے اور فصل جلد حاصل کرنے کے لیے اوکسی ٹوسن نامی دوائی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جو انجکشن کے زریعے ہر پھل یا سبزی میں داخل کر دی جاتی ہے تاکہ سبزیوں کا سائز اور وزن دنوں کے بجائے گھنٹوں میں بڑھ جائے، ایسے ہی بے شمار غیر انسانی حربے ہماری بیماریوں کا سبب بنتے ہیں اورہماری بیماری ہمیں ڈاکٹر کے دروازے تک لے جاتی ہے، پاکستانی ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کے حالات سے تو بیشتر لوگ واقف ہوں گئے جہاں ایک بستر پر تین سے چار لوگ تک لیٹے ہوئے اپنا علاج ہوتا دیکھ رہے ہوتے ہیں ڈاکٹرز حضرات چاہے وہ سرکاری ہوں یا کسی بڑے پرائیوٹ ہسپتال میں وہ وہاں دو کام کرتے انتحائی مصروف دکھائی دیتے ہیں ایک تو وہ ہر مریض کو اپنے پرائیوٹ کلینک کا وزٹنگ کارڈ تھماتے دکھائی دیں گئے اور دوسرا نہایت ضروری کام ہر مریض کوکچھ ایسی دوائیاں استعمال کرواناہے جس کی مریض کو تو بلکل بھی ضرورت نہیں البتہ ڈاکٹروں کو بے حد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹرز نے دوائیاں بنانے والی کمپنی سے دوائیوں کا کوٹہ ایک خاص مدتِ وقت میں ختم کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہوتا ہے اور اس کے عوض وہ میڈیسن کمپنی سے بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں اور آپ شائد یقین نہیں کریں گئے کہ یہ کمیشن کروڑں روپے ماہانہ تک ہوتی ہے، نئے ماڈلز کی گاڑیاں میڈیسن کمپنی کی طرف سے ڈاکٹرز کو تحفہ تو معمولی بات ہے، ایسے کسی ڈاکٹر کے گھر اگر آپ کو جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو اُن کے کچن تک میں ایک سے زائد ائیر کنڈیشن استعمال ہوتے دکھائی دیں گئے، ہسپتال اورڈاکٹرز کی بات ہو اور وائی۔ڈی۔اے کی بات نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے گردے ٹرانسپلانٹ کی اس کاروائی میں جو دو ڈاکٹرز گرفتار ہوئے ہیں اُن میں سے ایک وائی۔ڈی۔اے پنجاب کا جنرل سیکرٹری ہے، ہمارے یہاں کے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم کی طرح ینگ ڈاکٹرز ایسوی ایشن بھی طالب علموں کا وہ گروپ ہے جس کو علم کی کوئی طلب نہیں، ان کے اصل مقاصد میں زبردستی ہڑتالیں کروانا، ہسپتال میں کام بند کروانا ، گورنمنٹ اور متعلقہ ہسپتالوں سے مراعات لینا، کسی بھی وقت لڑائی جھگڑے کے لیے تیار رہنا، دسرے طالب علم اور ڈاکٹرز کے کاموں میں بے وجہ مداخلت کرکے اُن کو اپنے فرائضِ منصبی سے روکنا شامل ہیں ایسی سوچ ایسی ذہنیت کے حامل مستقبل میں انسانی جانوں سے کھیلنے والے ڈاکٹرز کسی بھی رعب یا دبدبے میں نہیں آتے گرفتاریاں،، جیل، مقدمات یہ سب ان کے لیے روٹین کی باتیں ہیں ان کی اسی ہٹ دھرمی کے آگے ہر دور کی حکمتوں کوان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔
یہاں ایک اور خوفنا ک کام جس کا زکر کرنا میں ضروری سمجھ رہا ہوں جو ان ہسپتالوں کی چار دیواری میں پورے عروج پر ہو رہا ہے اور جس کا سکینڈل ابھی پوری طرح سے منظرِ عام پہ نہیں آیا ہے وہ ہے نئے پیدا ہوئے بچوں کی ہیرا پھیری یا خریدوفروخت ، جی ہاں! ان ہسپتالوں میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں اُن کو عملے کی مدد سے تبدیل بھی کروا لیا جاتا ہے مثال کے طور پر اگر کسی کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے تو وہ گھر والے ہسپتال کے عملے کو رشوت دے کر کسی دوسرے کے ہاں پیدا ہوئے لڑکے کے ساتھ اُسے تبدیل کروا لیتے ہیں یا کسی کا لختِ جگر کسی دوسری فیملی کو روپے پیسوں کی عوض دے کر اصل والدین کو یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اُن کے ہاں مردہ بچے کی پیدائش ہوئی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کا کام کسی فردِ واحد کے بس کی بات تو نہیں ہے بلکہ ہسپتال کا پورا عملہ ڈاکٹروں سمیت ایک گینگ کی صورت میں یہ کام سر انجام دیتا ہے، کہتے ہیں ( اَت خدا دا وَیر ہے ) اب بس دیکھنا یہ ہے کہ ایسے کچھ اور میگا سکینڈل کب عوامُ الناس کے سامنے آتے ہیں اور حکومتِ پاکستان کب ان ایشو زکو سیریس لیتے ہوئے اسے اپنی ترجیجات میں شامل کرتی ہے تاکہ ڈاکٹرز کی اس کو لگام ڈالی جائے اور ہر زمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔