جواد احمد نے سیاست میں قدم رکھتے ہوئے اپنی نئی پارٹی پارٹی پاکستان کے نام سے رجسٹر کروا دی ہے، میرے لیے جواد احمد کی شخصیت کبھی بھی ایک گلوکار کے حوالے سے کچھ خاص اہمیت کی حامل نہیں رہی بلکہ ایک اچھی سوچ اور اچھے انسان کے حوالے سے ہمشہ خاص رہی ہے میرا تعلق جواد احمد صاحب کے کسی حلقہ احباب میں سے نہیں ہے نہ وہ میرے دوست یا کوئی عزیز رشتہ دار وغیرہ ہیں اور نہ ہی میری کبھی اُن سے ملاقات ہوئی ہے میں بس اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہہ میرے ٹوئیٹر اکاؤنٹ میں کچھ آٹھ سے دس لوگ ہیں جن کو میں فالو کر رہا ہوں اور جواد احمد اُن میں سے ایک ہیں جیسا کہ میں نے عرض کی مجھے اُن کی گائیکی سے کچھ خاص لگاؤ نہیں رہابلکہ اُن کے کچھ انٹرویوز میں ان کی سوچ نے مجھے کافی متاثر کیا ایک عام انسان لیکن انتحائی مثبت اور نایاب سوچ کے مالک جواد احمد کے نظریے کے مطابق آج کے دور کا ہر انسان اُس سے بہت تھوڑا استعمال کر پا تا ہے جتنے کی وہ حرص یا لالچ رکھتا ہے ایک انسان کی زندگی انتحائی محدود ہے لیکن اُس کا زیادہ کمانے یا زیادہ جمع کرنے کا لالچ لامحدود ہے ایک اور بات جس کا زکر وہ اپنے ہر انٹرویو میں کرتے ہیں اور میرے خیال میں اسی وجہ سے اُنہوں نے اپنی پارٹی کا نام بھی رکھا ہے وہ کم آمدنی والے طبقے خصوصا مزدور طبقہ کے حقوق ہیں، مزدور طبقہ اُن کے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ کا حامل ہے ایک مزدور جو چند ہزار روپے ماہانہ میں گزر بسر کرتا ہے اور نہ جانے کیسی کیسی مشکل معاشی صورتِ حال سے گزرتا ہے، یہ وہی غربت کا مارا طبقہ ہے جہاں سے ہر سال کبھی اپنے بچے فروخت کرنے تو کبھی عید سے پہلے بچوں کی طرف سے نئے کپڑوں کی فرمائش پر باپ کے خودکشی کرنے کی خبریں آتی ہیں اسی لیے یقیناً ایک مزدور کا جائز حق اُن کے منشور میں ٹاپ پر ہو گا۔
ایک بات جو یہاں سوچنے کی ہے وہ یہ کہ اتنی ساری سیاسی جماعتوں کے ہونے کے باوجود بھی کیوں کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے بجائے جواد احمد نے نئی بارٹی کا اعلان کیا تو جناب اس کی وجہ بہت صاف نظر آتی ہے کہ دوسرے بہت سے پاکستانیوں کی طرح جواد احمد بھی سب سیاسی پارٹیوں اور اُن کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں، میں نے کچھ دن پہلے ایک دانشور کو ٹیلی ویژن پہ کہتے سنا تھاکہ اُس نے اپنا ووٹ نواز شریف کو دے کر ضائع کر دیا کیونکہ اُن دانشور صاحب کا خیال تھا کہ حکومت کا چھن جانے اور ایک لمبی ملک بدری جیسی مشکلات کاٹنے کے بعد شریف برادران نے بہت کچھ سیکھا ہو گا اور اُن کے اندر اپنے ملک اور ہم وطنوں کی خدمت کا جزبہ کوٹ کوٹ کے بھر چکا ہو گالیکن جناب نواز شریف صاحب نے تو نااہلی اور کرپشن کے اپنے سابقہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالے اور ان کی حکومت نے ملک کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے بلکل اسی طرح میں نے ۲۰۱۳ میں اپنا ووٹ پی۔ ٹی۔ آئی کو یہ سوچ کر ڈالا تھاکہ یہ جماعت ملک میں بہت بڑی تبدیلی لے آئے گئی جس کے وہ بہرحال دعوے دار بھی ہیں عمران خان جب بھی بات کرتے تھے اور مثال دیتے تھے تو مہاتیر محمد اور انا ہزارے جیسے لوگوں کی کارکردگی کی مثال دیتے تھے، انا ہزارے جس کی زیر نگرانی صرف ایک گاؤں جو کرپشن سے پاک ہو گیا اور وہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ بن گئے جب عمران خان کو کے۔ پی۔ کے کی حکوت ملی تو مجھے تسلی ہو گئی کہ اب وہ وقت آ گیا ہے جب دنیا دیکھے گئی کے کیسے عمران خان نے کے۔ پی۔ کے کو ایک لاجواب مثالی صوبہ بنا دیا ہے لیکن جو ہوا وہ میرے لیے کسی بڑے بجلی کے جھٹکے سے کم نہیں تھا کیونکہ سب سے پہلے عمران خان اور اُن کے حامی منسٹر جس بات سے مکرے یعنی اپنا مشہور یو ٹرن لیا وہ کرپشن کا خاتمہ ہی تھا ایک ماہ میں کرپشن ختم کرنے کا دعوٰی کرنے والے عمران خان نے کہا کے کرپشن ختم کرنے سے میرا مطلب منسٹر لیول پہ کرپشن ختم کرنا تھی، جی ہاں اُن کے اسی یو ٹرن کا نتیجہ ہے کہ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی صوبے میں اُسی لیول کی کرپشن کا دور دورہ ہے یعنی پچھلے چار سالوں میں کے۔ پی۔ کے میں ان کی نام نہاد کارکردگی نے مجھے اور اُن کے بیشمار ووٹرز کو کافی مایوس کیا ہے اور یقیناًایسی ہی مایوسی کا شاخسانہ ہے کہ جواد احمد نے کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بننے کے بجائے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اُن کے اس اعلان سے میرے اور میرے جیسے کئی دوسرے پاکستانیوں کو آنے والے الیکشن میں کس امیدوار یا پارٹی کو ووٹ کاسٹ کرنے کی پریشانی سے چھٹکارا ملا ہے۔
خیر اب کچھ بات کرلی جائے اُن لوگوں کی جن کے خیال میں جواد احمد کا سیاسی پارٹی بنانا ایک مذاق ہے اور وہ اس اقدام کا سوچے سمجھے بغیر تمسخر اُراتے نظر آ رہے ہیں، ایک بات جو میں اپنی قوم یا یوں کہہ لیجئے کہ لوگوں کی اس بھیڑ کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری یاداشت انتحائی کمزور ہے اگر ہماری یاداشت اچھی ہوتی توہم کسی ایک حکمران سے ڈسے جانے کے بعد بار بار اُسے حاکم نہ چنتے، دراصل میں یاد یہ کروانا چاہ رہا ہوں کہ کچھ ۲۰ سال پہلے جب عمران خان نے اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا تھاتو میرے گھر والے، دوست احباب، رشتہ داروں سے لے کر پورا شہر بلکہ ملک حتٰی کے بیرونِ ملک پاکستانیوں نے اُن کا بہت مذاق بنایا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے عمران خان کے منہ سے کہتے سنا تھا کہ انگلینڈ کے دورے پر جب اُن کی ملاقات لارڈ نظیر احمد سے ہوئی تو اُنہوں نے خان صاحب کو مزاحیہ انداز میں جملہ کسا کے خان صاحب آپ کرکٹ میں ہی ٹھیک تھے یہ کس طرف نکل آئے سیاست آپ کے بس کی بات نہیں، لیکن دنیا دیکھ چکی ہے کہ آج وہ ایک مضبوط سیاسی جماعت کے نہ صرف لیڈر ہیں بلکہ اُن کی جماعت پچھلے چار سال سے ایک صوبے پہ حکومت بھی کر رہی ہے۔
آخر میں ایک چھوٹی سی گزارش جواد احمد کے نام، وہ یہ کہ اُنہوں نے جس رستے کا انتخاب کیا ہے وہ ہمارے ملک میں مشکل ترین اور بہت لمبا رستہ ہے، بے شمار تکلیفوں اور پریشانیوں سے بھرا یہ رستہ قدم قدم پہ آپ کی سچائی، ایمانداری، دیانتداری، مخلصی اور حب الوطنی کا امتحان لے گالیکن آپ نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے اور بلکل بے خوف اور ثابت قدمی سے اپنا سفر جاری رکھنا ہے، میں اور میرے جیسا ہر وہ پاکستانی جو اس ملک میں کا نظام چاہتا ہے آپ کے ساتھ ہے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین