میرے کچھ دوست اور عزیز و اقارب کا خیال ہے کے مجھے مذاح سے ہٹ کے بھی کچھ لکھنا چاہئیے۔ کسی نے پانامہ کا مشورہ دیا کوئی دہشت گردی تو کوئی حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کی بات کرتا ہے۔ میری سیاسی اُلجھنوں میں ایک اُلجھن ہمارے مُلک کی موروثی سیاست ہے جسکو میں ذاتی طور پہ ملکی مجموعی صورت حال کا بہت حد تک زمہ دار سمجھتا ہوں۔ یعنی آپ اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ یہاں صرف دو ہزار خاندان ایسے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے لاکھوں خاندانوں پہ حکومت کر تے چلے آرہے ہیں انہی خاندانوں میں گنتی کے چند ایسے بڑے گھرانے ہیں جو بڑے عہدوں یعنی صدارت یا وزارت عظمی جیسی سیٹوں پہ برجمان ہیں اور یہاں بڑے گھرانوں سے میری مراد امیرسیاسی گھرانوں ہی کی ہے۔
ایک اور ضروری بات پہ روشنی ڈالتا چلوں وہ یہ کہ ان بڑے گھرانوں کے کچھ فالور ایسے بھی ہیں جن کی پہچان ملک میں سیاست کے علاوہ بھی ہے یعنی ان لوگوں میں دانشور،ادیب،صحافی، شعراء اکرام،سوشل ورکر اور دیگر باعزت شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے صاحبان ہیں جنھوں نے اپنی ایک عُمر معاشرے اور لوگوں کی اصلاح میں گُذاری ہے وہ لوگ بھی جب سیاست کے ان بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو تنظیمًً اپنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوتے ہیں جناب سیاست کے بڑے تو چھوڑیے یہ جب ان سیاسی بڑوں کے چھوٹے یعنی وہ سیاسی بچے جو عمر میں ان صاحبان سے آدھے سے بھی کم ہوتے ہیں یہ لوگ ان کے پیچھے بھی ہاتھ باندھ اور سر جھکا کے ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے کوئی مریداپنے مرشد کے پاس کھڑا ہوتا ہے تو غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس معاشرے کے اصلاح کار جس معاشرے کے دانشور ایسی سوچ اور کردار کے مالک ہوں گئے تو اُس قوم کا مستقبل کیا ہو گا؟
اب نقطے کی بات پر آتے ہیں وہ یہ کہ ان سیاسی بڑوں یا چھوٹوں کو اس پاک سر زمین پہ حکومت کرنے کے لیے چنتا کون ہے؟ ان دو ہزار گھرانوں کو پچھلے کئی سالوں سے ووٹ ڈال کر بار باراوپر لاتا کون ہے؟ غربت ،تنگدستی، بیروزگاری، دہشت گردی، کرپشن، ناانصافی کی ستائی ہوئی اس قوم جسے زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات یعنی بجلی ،پانی ،خوراک تک بھی میسر نہیں ان کی جب ووٹ کے زریعے اپنا حاکم چننے کی باری آتی ہے تو یہ ستائی ہوئی عوام تب کیا کرتی ہے؟عر ض یہ ہے کہہ نقطہ چیں ہونا بہت آسان کام ہے بہت آسان ہے کہ کسی پہ بھی اُنگلی اُٹھا لی جائے اگر میں چاہتا تو دوسروں کی طرح اپنی اس تحریر میں نام لے لے کر حکمرانوں، سیاست دانوں، جاگیرداروں پر وہی مرچ مصالحہ ڈالتاجو سب ڈال رہے اور اپنی تحریر کو سپائسی بنالیتا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کے اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو یہ تبدیلی خود ہمارے علاوہ کوئی نہیں لا سکتا اس بات کا شعور ہمیں سب کو دلانا ہے ہمیں ہی ہمارے منجمند ذہنوں میں یہ بات ڈالنی ہے کہ ہمیں رشتے داری ،دوستی،برادری سے باہر نکل کر صرف پاکستان کا سوچنا ہے اور وہ ووٹ جسے ہم رشتے داری یا برادری ازم پہ قربان کر دیتے ہیںیہ ووٹ ہمارے ملک کی امانت ہے اور ہمیں اس کا استعمال بالکل جائز طریقے سے اپنا قومی فریضہ سمچھ کے ادا کرنا ہے۔
میری یہ تحریر نہ تو کسی جماعت یا فرد واحد کے حق میں ہے اور ناہی مخالف یہ تو بس ایک کوشش ہے کے ٹہرے پانی میں مار کرمیں اُس میں کچھ لرزش کچھ لہریں پیدا کروں اگر میری اس کوشش سے کسی ایک شخص کی سوچوں میں تھوڑا سا بھی بدلاؤ آ سکا تو میں سمجھوں گا میری کوشش کامیاب رہی۔