دنیاِ سائنس بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ساتھ ترقی کر رہا ہے اس دور کا معاشرہ، چاند پر جانا تو پرانی بات ہو چکی ہے اب تونئے سیارے نئی کہکشاں دریافت ہو چکی ہیں اور آج کے جدید معاشرے کا جدید انسان اب اور آگے کی سوچ رہا ہے روز مرہ زندگی کی بات کریں تو بے شمار آسائشیں اور آسانیاں ہماری زندگی میں شامل ہو جکی ہیں دفتر، کالج ، سکول میں کمپیوٹر بھی پرانی بات ہو چکی نئے سپر فاسٹ کمپیوٹر کئی گناہ زیادہ تیز اور ایکوریٹ ہیں گھروں میں ہم ہاتھ گیلے کیے بغیر کپڑے دھو سکتے ہیں سبزی کو ہاتھ لگائے بغیر اُسے کاٹ ، پکا اور کھا بھی سکتے ہیں، انسانوں کی جگہ ربوٹس اور ربوٹس کی جگہ انسانوں نے لے لی ہے، جی ہاں! ربوٹس کی جگہ انسان ،یہی بات میری آج کی تحریر کا نقطہِ آغاز ہے۔ ربوٹ، کسی بھی طرح کے احساسات اور محسوسات سے عاری ایک ایسی مشین جو صرف وہی کام کر سکتی ہے جس کے لیے اُسے بنایا جاتا ہے اُس کے اندر کوئی دل نہیں ہوتا جو وہ کچھ محسوس کر سکے کوئی ایسا دماغ نہیں جو خود اُسے کچھ سوچنے پہ مجبور کر سکے بس یہی تو وہ بنیادی فرق ہے جو ربوٹس اور انسان کو الگ کرتا ہے اب زرا سوچیں کہ چھوٹے معصوم بچوں کو قتل کر کے چند روپیوں کے لیے اُن کے اعضاء کیا کوئی انسان پیچ سکتا ہے؟ پیسوں کی خاطر اپنی اولاد تک کو فروخت کر دینے والا انسان ہو سکتا ہے؟ کھانے پینے کی عام اشیاء کی جگہ زہر اور زندگی بچانے والی ادویات میں بھی ملاوٹ کرنے والا کیا کوئی انسان ہوسکتا ہے؟ میرا جواب ہے یقینً نہیں توجس طرح ربوٹ کو پروگرام کیا جاتا ہے اُسی طرح آج کے انسان نے بھی خود کو پیسوں کے لیے پروگرام کر لیا ہے اب وہ پیسا کہاں سے آ رہا ہے؟ کس طریقے سے آ رہا ہے؟ حلال ہے حرام ہے جائز ہے ناجائز ہے کسی غریب کا پیٹ کاٹ کر پا کسی کا بھی گلہ کاٹ کر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آئے دن روز بروز ایسی خبریں اور قصے ہم انسانوں کے ملتے ہیں کہ سُن کر روح کانپ جاتی ہے کمائی مذہب کے نام پر ہو انسانیت کے نام پر یا حیوان بن کر بس کمائی ہونی چائیے کیونکہ ہمارے اس جدید معاشرے میں پیسے والا شخص ہی عزت دار ہے اور جینے کا حق بھی صرف اُسی کو ہے اُس کے لیے نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ جس پر اُسے عمل کرنا ہو، ہمارے یہاں اخلاص، اخلاق ، ایمانداری ، دیانتداری غرض کے ہر اچھائی کو جانچنے کا پیمانہ بھی دولت ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غریب آدمی الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا اگر کوئی عام غریب آدمی ایسا کرنے کی احمقانہ حرکت کر بھی بیٹھے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا، ایمانداری ہو، انصاف ہو، عزت ہو ،شرم ہو یا حیا ہم ان سب چیزوں کی خریدو فروخت کا بازار لگائے بیٹھے ہیں اور یہ گورکھ دھندا اپنے عُروج پر ہے کیونکہ بکتی وہی چیز ہے جس کی دیمانڈ ہوتی ہے میں اسی ملک اسی جدید معاشرے کا حصہ ہوں میں نے یہاں سچائی کو بہت کمزور دیکھا ہے اور سچ کہنے والوں کو ایکدم اکیلا دیکھا ہے اول تو انسانوں کے اس جنگل میں حق سچ کی کوئی آواز نہیں اُٹھاتااور اگر کوئی اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسی غلطی کر بھی لے پھر یا تو اُس آواز کو دبادیا جاتا ہے یا اُس انسان ہی کو اُسکی آواز سمیت دبا دیا جاتا ہے۔
یہاں اپنے معاشرے کی دلخراش لیکن سچی تصویر کشی کے بعدمیں اپنے جیسے لاکھوں کڑوڑں لوگوں کو جو کسی معجزے یا مسیحا کے انتظار میں بیٹھے ہیں وہ بات کہنا چاہتا ہوں جو ہمیشہ میں خود کوبھی سمجھتا ہوں کہ ہمیں کسی بھی مسیحا یا معجزے کے انتظار میں بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے عملی طور پر قدم اُٹھانا چاہیے ، یہاں باطن ظاہر کے آگے بہت کمزور سہی،حق بے آواز ہی سہی لیکن ایک چیز جو زندہ معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے اندر کبھی ختم نہیں ہوتی وہ ہے اُمید! میں پھر بتاتا چلوں کہ یہ وہ امید نہیں ہے جو گھر بیٹھے یا ٹیلی ویژن دیکھتے خبریں پڑتے کسی کو برا بھلا کہتے لگائی جاتی ہے اُمید وہ ہوتی ہے جو آپ اپنے طور پر کی گئی کوششوں کے بعد رب تعالیٰ کی ذات سے لگاتے ہیں کیونکہ نیک نیتی اور سچے دل سے کی جانے والی کوششیں کبھی ضائع نہیں جاتیں ہمیں معاشرے کی تعمیرو ترقی اور لوگوں کی اصلاح کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اس بے دلی اور سوچ سے باہر نکل کر کرنا ہے کہ بھلا میں اکیلا اس معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا کر سکتا ہوں بارش کے پہلے قطرے کو زمین پر گر کر فنا ہونا ہی پڑتا ہے، قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں حق کے آگے باطل کا شور کبھی ہمیشہ نہیں ٹہرتا کیونکہ حق ہی کی جیت ابدی ہے یہی سوچ یہی فکراور یہی کوشش ہمیں ہمارے لوگوں کے اندر پیدا کرنی ہے ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے لوگوں کو بھی قائل کر سکیں کہ کیسے اُنہیں زندگی میں اپنا کردار مثبت طریقے سے ادا کرنا ہے ، سچائی کا ساتھ دینا ہے، برائیوں سے بچنا ہے، اپنی نئی آنے والی نسلوں کو صرف کامیابی کے بجائے انسانیت کا بھی درس دیں اپنے بچوں کو پوزیشن لینے اول آنے زندگی کی ہر دوڑ میں جیتنے کے ہنر کے ساتھ ساتھ اخلاق ،خلوص اور لوگوں کی مددکا جزبہ بھی اُن کے اندر بھریں یہی وہ شروعات ہے جس کی بدولت ہمارے معاشرے میں مثبت تیدیلی آنا شروع ہو گئی کیونکہ ہمارے اس جدید معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت اصلاح ہی کی ہے۔