پانامہ کا فیصلہ نواز شریف کے سیاسی کیرئیر کو ایک دفعہ پھر امر کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے، جی ہاں! میرے نقطہ نظر سے بیشتر احباب اتفاق نہیں کریں گئے لیکن اگر پاکستانی کا ماضی سیاسی آئینہ میں دیکھا جائے تو ہر جمہوری حکمراں جماعت کی کامیابی کے پیچھے عوام کی ہمدردیوں کی ایک لمبی داستان چلی آ رہی ہے، بھٹو کی پھانسی، اسمبلیوں کا بار بار ٹوٹنا، نواز شریف کی ملک بدری، بینظیر کی ملک بدری پھرقتل یہ وہ سارے معاملات ہیں جو میری سیاسی بصیرت کو واضع اشارہ ہیں کہ اگر پانامہ کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو وہ بلاشبہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گئے کیونکہ عدالت عظمٰی کے فیصلہ کے احترام کا بہانہ اُن کے لیے سیاست کے میدان میں ٹرمپ کارڈ ثابت ہو گا، اب اگر اسی بات کو تھوڑا آگے بڑھاتے ہم ماضیِ قریب کا جائزہ لیں تو روپے پیسے کی کرپشن کسی بھی حکمران دور میں ہماری عوام کی نظر میں کوئی جرم نہیں رہا، بیرونِ ملک اثاثہ جات، منی لانڈرنگ، کک بیک اور اسی طرح کے ہر جرم ہر کرپشن پہ ہماری عوام نے اپنے حکمرانوں کو کلین چِٹ دے رکھی ہے اور چھوٹے یا بڑے کسی بھی الیکشن میں وہ ہر بار مخصوص لوگوں کو ہی ووٹ دیتے اور حکمران چنتے ہیں۔
پانامہ کا فیصلہ جو میری یاداشت کے مطابق۲۳ فروری کو محفوظ ہوا تھا اب جلد منظرِعام پہ آنے کو ہے اور جیسا کے بظاہر لگ رہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد وزیرِاعظم نواز شریف کو وازرتِ عظمی کی کرسی سے محروم ہونا پڑے گااور اُن کے کسی نہایت بھروسے منداور قریبی سیاسی ساتھی کو یہ منصب تحفے کے طور پر پیش کیا جائے گا، کہا جاتا ہے کہ صدرِ مملکت کی کرسی تو دہی بھلے کھلا کر ہی حاصل ہو گئی تھی تو دیکھیے وازرتِ عظمی کے لیے کونسی ڈش کا نام سامنے آتا ہے۔
میری ذاتی رائے اور خواہش یہی تھی کے کہ ن لیگ بھی پیپلز پارٹی کی طرح اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بھینٹ چڑھے اور اپنی طبعی سیاسی موت مرے لیکن اب شائد ایسا ممکن نہ ہو سکے اور نواز شریف ایک دفعہ پھراپنی ساری کارکردگی کو عدلیہ کے کندھوں پر رکھ کردوبارہ سے اپنا سیاسی ٹوکرا اپنے اُنہی گندے انڈوں سے بھرکے میدان میں آجائیں گئے تا کہ ایک دفع پھر اس غائب دماغ عوام کو بے و قوف بنایا جا سکے، موجودہ حکومت کی کارکردگی اور ہماری عوام کی یاداشت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے تو پیپلز پارٹی بھی آنے والے الیکشن کے لیے پُرچوش دکھائی دے رہی ہے اُن کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو نے پارٹی کمان سنبھا لنے کے بعد پارٹی میں نئی روح پھونک دی ہے، موجودہ مرکزی حکومت کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت اور اُس کے سربراہ ایک دفعہ پھر نئے جوش و جذبے کے ساتھ پانامہ اور آنے والے الیکشن کے لیے سرگرمِ عمل ہیں لیکن ہمارے ملک کے بیشتر سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں عمران خان کا سیاسی مستقبل حکمران جماعت کے حوالے سے بلکل بھی تابناک نہیں ہے، اس کی وجہ کچھ دانشور کے۔پی۔کے میں PTI حکومت کی کمزور کارکردگی اور کچھ عمران خان کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے اُن کی سیاسی تنہائی اس کی بنیادی وجہ بتاتے ہیں وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن ہمارے ملک کا بیشتر نوجوان طبقہ آج بھی عمران خان کو اپنا لیڈر اور مستقبل کا وزیرِاعظم مانتا ہے۔
اب اگر اسی حوالے سے تھوڑی سی بات سوشل میڈیا کی کیجائے تو پانامہ کے حوالے سے بیشتر پوسٹس فیصلہ محفوظ ہونے کے عدالتی فیصلہ کی ناپسندیدگی میں ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی پوسٹ فیصلہ جلدی سنانے کے حق میں آتی رہتی ہے ایسے جذباتی عوام کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ عدالت کو ایک خاص مدت تک فیصلہ محفوظ کرنے کا حق ہوتا ہے بعض قانون دان یہ مدت تین ماہ اور بعض چارماہ تک کی بات کرتے ہیں اور اس عرصہ میں ہی عدالت کو اپنا فیصلہ جاری کرنا ہوتا ہے اگر اس عرصے میں عدالت اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتی تو قانون کے مطابق مقدمے کے دوبارہ ٹرائل ہوتے ہیں اب یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ پانامہ جیسے کیس میں ری ٹرائل تونہیں ہو سکیں گے تو یہی بات رہ جاتی ہے کہ آئندہ آنے والے چند روزاس فیصلے کے حوالے سے بہت اہم ہوں گئے کیونکہ آنے والے انہی کچھ دنوں میں عدالت اپنا فیصلہ جاری کرے گئی، میری دُعا ہے کہ فیصلہ جو بھی ہووہ ہماری قوم کے حق اور اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے بہترین ہو۔ آمین