رشوت یا بدعنوانی سے مراد ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنا ہے، جس سے کسی فرد یا سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کو نقصان پہنچنے کا سبب ہو۔
رشوت اور بدعنوانی جو اس وقت ایک لا علاج مرض کی طرح ہے اور دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے، جس کا فوری طور پر کوئی حل بھی ممکن نظر نہیں آرہا اس وجہ سے معاشرہ تباہی کی لپیٹ میں ہے۔ ایک عام آدمی سے لے کر بڑے پڑھے لکھے لوگ جن میں ملازمت پیشہ اور کاروباری لوگوں کی اکثریت اس برائی میں مبتلا ہے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حکومتوں کے اعلیٰ عہدیدار، سیاستدان، سفارتکار، غرض یہ کہ سب کے سب شامل ہیں۔ روز مرہ کے معاملات میں لوگوں سے گفتگو کے دوران اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ "وقت ہے کچھ کرلو"، "بچوں کیلئے بھی تو کچھ کرنا چا ہیئے" "خیر ہے سب چلتا ہے " "مہنگائی ہے گزارہ نہیں ہوتا" وغیرہ۔ حالانکہ سب لوگ جانتے بھی ہیں کہ یہ ایک گھناؤنا جرم اور گناہ عظیم ہے پھر بھی معاشرے میں اس حد تک بے حسی دیکھنے میں آئی ہے کہ سرکاری اداروں میں تو کرپشن عام ہے لین دین کے بغیر کوئی چھوٹا بڑا کام ہو نہیں سکتا، لیکن جیلوں میں قید لوگوں اور ان سے ملنے والوں عزیزوں کو تو رشوت کے بغیر قیدیوں سے ملنے نہیں دیا جا تا اور افسوس در افسوس کہ قبرستانوں کو بھی نہیں چھوڑا، وہاں قبر حاصل کرنے کیلئے بھی رشوت کا لین دین ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا ملازمتوں کا حصول تو رشوت کے بغیر ممکن ہی نہیں، البتہ ہزاروں میں کوئی ایک اللہ کا بندہ جو دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہو تویہ ممکن ہے اس طرح کا روبار میں کرپشن بہت زیادہ ہے کہتے ہیں کہ کیا کریں، اوپر تک جو پیسہ دینا ہوتا ہے۔ اس لیئے کرپشن شترے مہار کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
دین اسلام میں رشوت کا لین دین حرام اور ممنوع ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "اور نہ تم کھائو اپنے مال آپس میں ناجائز طریقے سے اور نہ تم لے جائو ان کو حاکموں کی طرف تاکہ تم کھائو کچھ حصہ لوگوں کے مالوں سےگناہ کے ساتھ حالانکہ تم جانتے ہو"(سورۃ البقرہ۔ آیت نمبر 188)۔ اس سلسلے میں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "رشوت لینے والے اور دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے" دوسری حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ"ہر وہ گوشت جو حرام مال سے پرورش پائے، جہنم کی آگ ہی اس کیلئے بہتر ہے"۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشوت کا لین دین کس قدر سخت گنا ہ کا کام ہے اور ملکی قانون کے مطابق بھی ممنوع ہے لیکن پھر بھی لوگ بے خوف ہو کر رہ رہے ہیں۔ اب آئیے جائزہ لیگے ہیں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی رشوت کے کیا اسباب ہیں۔ ذیل میں تفصیلً پیش خدمت ہے:
1۔ اس سلسلے میں ایک خاص وجہ یہ کہ ہمارا طرز زندگی بدل گیا ہے، پرانے زمانے میں لوگ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ فضول خرچی سے بچتے تھے اور اب ہم نے اپنی محدود آمدنی کے باوجود شاہنہ طریقہ اپنا یا ہوا ہے، ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس کے پاس ایک بڑا گھر ہو گاڑی ہو، گھر میں ایئر کنڈیشنز ہوں، نوکر چاکر ہوں۔ تو یہ سب کچھ محدود آمدنی سے نہیں ہوسکتا۔ اس لیئے ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنے کی دوڑ میں کرپشن کی طرف چلے جا تے ہیں۔
2۔ اس کے علاوہ غربت، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بھی لوگ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنے میں لگ جا تے ہیں۔
3۔ سرکاری اخراجات بڑھتے ہی جا رہے ہیں جس کی خاص وجہ سیاستدانوں اور افسران اعلیٰ کی طرف سے کی جا نے والی شاہ خرچیاں اور کرپشن ہے۔
4۔ اعلیٰ حکومتی عہدیداران اور افسران کے اندورن اور بیرون ملک کے دوروں پربھی بے تحاشا دولت لٹا ئی جاتی ہے۔
5۔ جو ادارے اور محکمے کرپشن کو روکنے کیلئے قائم کئے گئے ہیں وہ کرپشن ختم کرنے میں نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ کرپشن کو بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں، جن کی بے شمار مثالیں ہم آئے دن دیکھتے اورسنتے رہتے ہیں۔ غرض یہ سیلاب اب جلد اور آسانی سے رکنے والا نہیں۔
6۔ قومی ترقی کیلئے جو منصوبے شروع کئے جا تے ہیں وہ بھی ٹھیکیداری نظام اور کمیشن کے لین دین کی نظر ہوجا تی ہیں مثلاً کروڑوں روپے کی لاگت سے جو سڑکیں بنائی جا رہی ہیں وہ چند ماہ کے اندر بیٹھ جا تی ہیں اور ان پر پھر سے کام شروع کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور بیس کروڑ لاگت سے شروع ہونے والے منصوبے کی لاگت بتیس کروڑ ہوجاتی ہے۔
7۔ ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ملازمتیں زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر دی جاتی ہیں۔ بلکہ بیچی جا تی ہیں تو جو لوگ اصول سے ہٹ کر بھرتی ہوتے ہیں پیسہ دے کر ملازمت حاصل کرتے ہیں ان میں اکثریت نااہل لوگوں کی ہوتی ہے جو ملکی معیشت پر بوجھ ہی ہوتے ہیں اور رشوت کے طور پر دیا ہو اپیسہ نا جائز ذرائع سے ہی حاصل کرتے ہیں اس طرح وہ پہلے سے جاری کرپشن کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
ذیل میں دیئے ہوئے دو قسم کے کا م بھی بد عنوانی کے زمرے میں آتے ہیں:
1۔ کچھ ملازمت پیشہ لوگ اپنی ملازمت میں وقت کی پابندی نہیں کرتے اور روزانہ ایک دو گھنٹہ دیر سے دفتر پہنچتے ہیں لیکن تنخواہ پوری لیتے ہیں جو ایک ناجائز کام ہے۔
2۔ کافی ملازم دعوت تبلیغ میں وقت لگا تے ہیں جو ایک فرض ہے لیکن دفتری اوقات سے ہر آٹھ یا دس دن میں ایک مکمل دن بغیر قانونی چھٹی کے دفتر نہیں جاتے، یہ عمل ایک فرض پورا کرکے، دوسرا گناہ اور جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
راقم کو زندگی کا بہت بڑا حصہ سرکاری ملازمت میں گزارنے کے تجربے اور مشاہدے میں بے شمار واقعات اور مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں جن کو لکھنے کیلئے ایک کالم نہیں بلکہ کتابیں چاہیئے لیکن مقصد صرف ایک اہم مسئلے کو اہل علم اور اقتدار لوگوں تک اس ارادے سے پہنچانا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پرقلیل مدتی اور دائمی اقدامات تجوایز کریں اور کرپشن کو کم ا ز کم کچھ کم ہی کیا جا سکے اورآئندہ کیلئے اس کا راستہ بند ہوجا ئے۔ ورنہ" Say no to corruption"اور"Anticorruption Strategy"جیسے خالی نعروں سے کرپشن نہیں ہو سکتی۔ دیکھا گیا ہے کہ رشوت خوروں پر نہ کسی نصیحت کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی سزا کا خوف، کھلم کھلا رشوت لیتے اور کہتے ہیں کہ سب چلتا ہے، دیکھا جا ئے گا، وغیرہ۔
رشوت اور بدعنوانی کو روکنے کیلئے چند تجاویز:
1۔ ملک کا سیاسی نظام جو کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ناکا م ہی رہا ہے۔ بتدریج تبدیل کیا جا ئے تاکہ عوام کے مسائل مثلاًسستا انصاف مہیاکرنے اور کرپشن فری معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوسکے۔
2۔ احتساب کا موثر نظام رائج کیا جا ئے جس کے تحت ہر شخص اور ادارہ جوابدہ ہو۔ موجودہ قومی احتساب بیورو
(National Accountability Bureau) کو مزید فعال بنا کر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
3۔ ملازمتوں میں سیاسی مداخلت ختم کرکے اہلیت کا اصول اپنا یا جا ئے۔
4۔ قومی اداروں کو سیاست سے پاک کرکے عوام دوست ماحول بنا یا جا ئے۔
5۔ میڈیا کے ذریعے عوام میں رشوت اور بدعنوانی کےمتعلق آگاہی اور شعور اجاگر کیا جا ئے۔
6۔ لوگوں کو اسلامی تعلیم کے حوالے سے معاشرے میں موجود رشوت اور بدعنوانی کی خرابیاں اور حلال اور حرام کے اصول بتا ئے جا ئیں۔