پریشانی ایک ایسا مسئلہ ہے اکثر لوگ اس میں مبتلا ہیں اور اس کا فوری حل چاہتے ہیں، لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ کوئی اس کا حل مال و دولت میں ڈھونتا ہے، کوئی اقتدار اور کرسی میں، کوئی کسی طریقے سے عزت و شہرت حاصل کرکے اور کوئی نشے کے ذریعے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ان تمام چیزوں میں اسے سکون نہیں ملتا اور ہر کوئی ٹینشن کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ تقریباً بارہ سال پہلے ایک بڑے ادارے میں ٹریننگ کے دوران ایک بہت بڑا ماہر امراض قلب لیکچر دینے آیا اس نے صحت کے بارے میں جہاں کافی مفید مشورے دیئے وہاں یہ بھی بتا یا کہ موسیقی روح کی غذا ہے اس لیئے سکون حاصل کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہیئے۔ آج کل کے حالات میں مسائل بڑھ گئے ہیں۔ جس سے تنگ آکر لوگ شدید ذہنی دباؤ کاشکار ہورہے ہیں۔ کچھ لوگ ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ کچھ تو خود کشی کرلیتے ہیں۔
ہائی اسکول میں تعلیم کے دوران ہمارا ایک ساتی تھا جو فلمی ہیرو بننا چاہتا تھا۔ ہر وقت ادا کاری کرتا نظر آتا، ہیرو کی طرح بال بنواتا تھا، پھر وہ لاہور بھی گیا، لیکن وہ ہیرو نہ بن سکا اور مایوس واپس لوٹا اور کچھ عرصے بعد وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا اور سڑکوں پر اداکاری کرتا نظر آیا۔ اسی طرح چھ سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک سابقہ دفتر کاایک اسسٹنٹ جس نے نئی نئی شادی کی تھی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی بیوی انتقال کرگئی توہ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکا اور اس نے خود کشی کرلی۔ اس کے علاوہ کچھ دن پہلے میری ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی وہ مجھے بیمار نظر آیا۔ میرے معلوم کرنے پر بتا یا کہ وہ بیمار ہے اور اسے ٹینشن ہے جس کی اس نے کوئی خاص وجہ بھی نہیں بتا ئی، حالانکہ وہ ہمیشہ خوش رہنے ولا، خوش شکل اور خوش پوشاک آدمی تھا۔ لیکن ابھی وہ ٹینشن میں مبتلاہے اس پر میں نے اس کو ملازمت کے زمانے کی کچھ باتیں سنائیں جن میں ایک بات یہ بھی تھی آپ بی سن لیجئے: میں اور مذکورہ دوست پوری زندگی وفاقی حکومت میں افسر رہے، ہمارا مرکز تو ظاہر اسلام آباد ہی تھا لیکن اکثر کراچی میں ہی تعیناتی رہی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب اسلام آباد سے ہمارے ساتھی افسر ہمارے پاس کراچی آتے تو ہم ان کو اسلام آباد کے لیئے اپنے دفتری کام بتا تے جن کا وہ وعدہ کرکے چلے جاتے لیکن اکثر یہ ہوتا تھا کہ جب ہم ان کو فون کرتے یا کسی میٹنگ کے سلسلہ میں اسلام آباد جاتے اور ان سے پوچھتے تو وہ اپنی لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتے کہ بھائی کونسا کام اور کس دفتر میں وغیرہ تو اس طرح کے واقعات میرے لیئے ہمیشہ کیلئے مثال بن گئے، اور جو کوئی دوست پریشانی کی باتیں کرتا تو میں اسے کہتا کہ بھائی کوئی بات نہیں، ٹینشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں، تم اسلام آباد والے بن جاؤ یعنی ایک کان بات سنو اور دوسرے کان نکا ل دو پھر کبھی ٹینشن نہیں ہوگا۔ میرے یہ دوست میری یہ بات سن کر مسکرا ئے تو ضرور لیکن ٹینشن ان کے چہرے سے عیاں تھا۔
اب آتے ہیں اس مسئلے کے حقیقی اور قدرتی حل کی طرف قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا، وہ لوگ جو ایمان لائے اور مطمئن ہوتے ہیں ان کے دل اللہ کے ذکر کے ساتھ۔ آگاہ رہو! اللہ کے ذکر سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں۔ 13 پارہ۔ سورۃ الرعد (13)۔ آیت نمبر 28۔ دوسری جگہ فرمایا "پھر یقیناً (ہر) تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بلاشبہ (ہر) تنگی کے ساتھ آسانی ہے (پارہ 30، سورہ 94 اور آیات نمبر 5۔ 6)۔ اسی سلسلے میں اللہ پاک کا فرمان ہے کہ "نہیں تکلیف دیتا اللہ کسی نفس کو مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی "(پارہ 3، سورۃ 2، آیت 286)۔ ان احکام خدا وندی اور حضور ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے، غم ہلکا ہوتا ہے مسائل بھی آہستہ آہستہ حل ہوجا تے ہیں۔ ٹینشن لینے اور اپنی پریشانی میں اضافہ کرنے سے کوئی فائد ہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بڑے اللہ والے بزرگوں اور علماء کرام نے تو کئی کتابیں لکھی ہیں، جن میں رہنما اصول بتا ئے ہیں تاہم ذیل میں چند باتیں مختصراًپیش کی جارہی ہیں۔ جن پر عمل کرکے انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں اور آخرت بھی سنور جا نے کی امید رکھنی چاہیئے۔
(1)دین کی بنیاد ی تعلیم، جس میں قرآن پاک تجوید اور ترجمہ سے پڑھتے رہنا اور حضور پاک ﷺکی سیرت طیبہ اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنا اور عمل کی کوشش جاری رکھنا۔
(2)گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا، حرام روزی سے بچنا اور حلال روزی کمانے کا احتمام کرنا۔
(3)عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات پر بھی خصوصی توجہ دینا۔
آخر میں مولانا حکیم اخترصاحب (مرحوم) کا یہ شعر پیش خدمت ہے۔
"نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے "