1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عبد الوہاب/
  4. استاد

استاد

معاشرے کو سنوارنے اور بامقصد بنانے میں استاد کا کردار بے حد اہم ہے کیونکہ ایک اچھا استاد ہی بچوں کی زندگی بنانے میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ استاد کے موضوع پرکافی کچھ لکھا گیا ہے جن میں دنیا کے نہایت ہی قابل اساتذہ اور ماہرین تعلیم شامل ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ ایک اچھے استاد میں کیا خوبیاں ہونی چاہیئے، کچھ نے لکھا ہے استاد کی شخصیت اور کردار مثالی ہونا چاہیئے، یعنی وہ طالب علموں کیلئے رول ماڈل ہونا چاہیئے۔ کیونکہ استاد جو خود بھی طالب علم رہ چکا ہے اپنی تعلیم اور تجربہ استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو اعلیٰ کردار انسان بنانے پر توجہ دے سکتا ہے۔ اس لئے استاد ہونا ایک لازوال نعمت اور عظیم سعادت ہے۔

"استاد"کے موضوع پر کافی کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ جن میں پوری دنیا کے مختلف تعلیمی ماہرین شامل ہیں لیکن اس نشست میں ہم دو نہایت ہی قابل اساتذہ اور ماہرین تعلیم جن کی "استاد" کے موضوع پر کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان کا مختصراً ذکر کریں گے۔

1۔ ایک کتاب "مثالی استاذ" کے نام سے اردو زبان میں اپریل 2013ء میں بیت العلم ٹرسٹ، کراچی سے شائع ہوئی ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے مصنف مولانا محمد حنیف عبدالمجید ہیں جو دارالافتاء جامعتہ العلوم اسلامیہ کراچی کے سابق ہیں۔ یہ کتاب حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے لکھی گئی ہے اس میں بتا یا گیا ہے کہ آپ ﷺ ایک بہترین اور مثالی استاد ہیں۔ جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کو پڑھایا اور سکھایا اور وہ سب کچھ کرکے بھی دکھایا۔ اس لحاظ سے یہ ایک بہترین کتاب ہے اوروہ کتاب دینی مدارس کے علاوہ، اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کیلئے بھی یکساں مفید ہے کیونکہ یہ رہنمائی کے اصولوں پر مبنی ہے۔

2۔ دوسری کتاب جو "استاد"کے عنوان سے 1973ء میں شائع ہوئی وہ سندھی زبان میں ہے جس کے مصنف پروفیسر سید غلام مصطفیٰ شاہ

(مرحوم) ہیں، شاہ صاحب برصغیر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ، ایک اعلیٰ ، پرنسپل، ویسٹ پاکستان کے ڈائریکٹر ایجوکیشن رہے اور آخر میں 1968 سے 1973 تک سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ شاہ صاحب نے اس کتاب میں سندھ میں گرتے ہوئے تعلیمی معیار پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور تعلیم کے میدان میں ترقی کیلئے قیمتی مشورے دیئے ہیں۔

ان کتابوں کے علاوہ بھی بیشمار ملکی اور غیر ملکی اساتذہ مفکرین اور ماہرین تعلیم نے اچھے کی خوبیاں بیان کی ہیں۔ جن پر عمل کرکے تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں پر صرف مقامی اور سندھ کی سطح پر تعلیم اور زیر بحث ہیں۔

بچے مستقبل کے معمار ہیں، جن کو معاشرے میں اہم ذمہ داریاںسنبھالنی ہیں، اس لئے لازمی ہے کہ ان کو صحیح تعلیم اور مناسب تربیت ملے اس لئے ان کو ایسے اچھے، قابل اور تجربہ کار اساتذہ کی ضرورت ہے جن میں اچھے کی تمام خوبیاں ہوں جس سے بچے معاشرے کے ذمہ دار افراد اور چھے شہری بن سکیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ کا تقرر کرتے وقت ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جا تا بلکہ سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ بے روزگار لوگ تو بن جاتے ہیں لیکن مطلوبہ اہلیت اور صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اچھی تعلیم نہیں دے سکتے، بچوں کی ضروری تربیت نہیں کرسکتے۔ جس سے نجی ٹیوشن اور نقل کے رحجان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جس سے تعلیم معیار پست سے پست ہورہا ہے۔ البتہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سیمسٹر سسٹم کی وجہ سے تعلیمی معیار میں کچھ بہتری آئی ہے، اور محکمہ تعلیم کی طرف سے نقل کو روکنے کے سلسلہ میں کچھ کوششیں کی جارہی ہیں اور بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے دیکھا گیا ہے کہ ہمارے طلبہ مقابلے کے اہم امتحانات جیسے سی۔ ایس۔ ایس وغیرہ میں اچھی کارگردگی نہیں دکھا رہے، سوائے چند کے، جو خود محنت کرکے کامیاب ہوجا تے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے اخباروں میں خبریں آرہیں تھیں کہ ایک علیٰ عدالت میں ایک استاد کی پیشی ہوئی تھی۔ جج صاحب نے صاحب سے پوچھ لیا کہ "وہ لاہور گیا"، اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوگا؟تو صاحب صحیح جواب نہ دے سکے تو جب کا یہ حال ہو وہاں تعلیم کا کیا حال ہوگا۔ کی عظمت کے سلسلے میں مندر جہ ذیل مثال پیش خدمت ہے:

علامہ اقبال نے شمس العلماءکے خطاب کیلئے جب اپنے استاد "میر حسن" کا نام پیش کیا تو اس پر کمیٹی کے ممبران نےپوچھا کہ، ان کی کوئی تصنیف ہے؟ علامہ صاحب نے جواب میں کہا کہ ان کی نصنیف میں ہوں۔ یہ جواب سن کر کمیٹی کے ممبران حیران رہ گئے اور علامہ صاحب کی فہم و فراست کی تعریف کرنے لگے۔

استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کادرجہ حاصل ہے دنیا میں والدین کے بعد بچوں کی تربیت کی ذمہ داری پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ ہمیں دنیا میں رہنا اٹھنا بیٹھنا اورجینا سکھاتا ہے اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد کرتا ہے اس لئے وہ واجب الاحترام شخصیت ہے وہ ہی ہے کہ جو لوہے کو گرم کرکے کندن بنانے کی طرح طالب العلم کی شخصیت کو بناتا ہے لیکن افسول کہ بدلتے وقت کے ساتھ اب استاد کو معاشرے میں وہ عزت نہیں دی جاتی جس کا وہ لائق ہے۔ لیکن یہ بات بھی افسوس سے کرنی پڑتی ہے کہ آج کا استاد بھی معاشرے کی اس تبدیلی کے باعث مندر جہ بالا خوبیوں والا ثابت نہیں ہوسکا۔ اس لئے معاشرے کے تعلیم یافتہ اور صاحبان حیثیت لوگوں کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غورو فکر کرکے اور حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔