1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. بے حسی

بے حسی

پاکستان کا ایک علاقہ ہے جسے تھر کہتے ہیں، میں زندگی میں ایک بار بھی وہاں نہیں گیا لیکن ٹی وی، سوشل میڈیا کے ذریعے وہاں کے حالات دیکھتا رہتا ہوں، یہ تھر زندہ لوگوں کا قبرستان ہے، ہر طرف آپکو بے رونق چہرے، بچپن میں بوڑھے ہو جانے والے بچے اپنی موت کے انتظار میں زمین پہ رینگتے یا اکھڑتی سانسوں کے ساتھ سسکتے نظر آئیں گے، ہر ماں چاہتی ہے اسکا بچہ جلدی مر جائے لیکن بھوک پیاس سے تڑپے نہیں۔ سردی ہو یا گرمی دونوں موسم ان کے لیے موت کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ جہاں کبھی بارش کی بوند برسے تو ترسے ہوئے نیم زندہ لوگوں کے سوکھے لبوں پہ سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ کی تسبیح جاری ہوجاتی ہے، اس مقتل سے سینکڑوں میل دور ایک شہر ہے جسے لوگ اسلام،، ،،، آباد کہتے ہیں اور یہ اُس ملک کا دارالخلافہ ہے جو اسلام کے نام پہ بنایا گیا اس اسلام کے نام پہ جس اسلام کے بانی کا طرز حیات یہ تھا کہ خود بھوکا رہتا لیکن اپنے غلاموں کو بھوکا نا رہنے دیتا اس اسلام کے بانی کی ایک بیٹی بھی تھی جو خود تو روزہ پانی سے افطار کر دیتی مگر کبھی اپنے در سے سائل کو خالی نا لوٹاتی، ہاں یہ وہی ملک ہے جو اس محمد ص کے اسلام کے نام پہ بنایا گیا۔ آج اس اسلام،،،، آباد میں اس ملک خداد کے حکمران پر سکون، میٹھی نیند میں نرم بستروں پہ سوتے ہیں، منرل واٹر کے سوا پانی کی ایک بوند بھی حلق سے نیچے نہیں اتارتے، انکے کمروں میں، انکے باورچی خانوں میں حتیٰ کہ انکے پالتو کتوں کے کمرے بھی ائیر کنڈیشند سے ٹھنڈے رہتےہیں، بھلا انکو کیا پتہ اسی مملکت اسلامیہ کی رعایہ ایک تھر نما دوزخ میں پانی کی بوند کے لیے ترس رہی ہے۔

ہم اسلام آباد کیوں جائیں تھر کے قریب تو پاکستان کا سب سے بڑا اور امیر شہر ہے جسے کراچی کہا جاتا ہے، جہاں کے لوگ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار کئیے جاتےہیں وہاں کی ایک پارٹی تو بنی ہی غریبوں کی روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پہ تھی لیکن اس تھر میں چند نلکے لگوانے کے بعد وہ پارٹی بھی اسی ریگستان میں بے حسی کا کفن پہنے کہیں دفن ہو چکی ہے۔

اس مملکت اسلامیہ کا میڈیا جو ساٹھ سیکنڈ کے ایک اشتہار چلانے کے لاکھ دو لاکھ لے لیتا ہے، لیکن ان نیم زندہ لوگوں کے لیے ایک کنواں تک نہیں کھدوا سکتا، اس ملک کی بے حس قوم اور بے حس حکمرانوں پہ لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے جو ٹی وی پروگراموں میں ایک موٹر سائیکل کے لیے ساری دنیا کے سامنے اپنی بیٹی کو تو نچوانے پہ رضا مند ہو جاتے ہیں لیکن مجال ہے جو کبھی تھر کی تشنہ لب بیٹیوں کے سر پہ چادر تک کروائی ہو۔

ایک ڈبہ کھلوانے کے بدلے آٹھ لاکھ کی کار دینے والی موبائل فون کمپنیاں اگر دو لاکھ کے واٹر پمپ ہی وہاں لگوا دیں تو ناجانے کتنی پیاسی ماؤں کے پیاسے شیر خوار بچ پڑیں، لیکن وہ کمپنیاں ایسا کام کیوں کریں جس میں انکی مشہوری ہی نا ہوپائے۔

درباروں کی گدیوں پہ بیٹھے موٹے پیٹ والے پیر جو اپنے ہی مریدوں کے پیسوں سے لنگر خانے کھول کر بیٹھے ہیں اگر ان سے کہا جائے پیر صاحب اپنی جائیداد میں سے غریبوں کا بھی حصہ نکالیں تو ان نام نہاد امیر شریعت گدی نشیوں کو موت آنے لگتی ہے۔

منبروں پہ جھوم جھوم کر سرکار ص کے فضائل بیان کرنے والے موٹی گردن اور بڑھے ہوئے پیٹ والے علاموں سے کہا جائے کہ قبلہ جس نبی ص کی نعتیں پڑھ رہے ہیں انہوں نے تو ہمیشہ بھوکوں کو کھانا اور پیاسوں کو پانی پلایا ہے آپ اپنے ملک میں بھوک پیاس سےمرنے والے لوگوں کی مدد کب کریں گے تو امید ہے آپکو گستاخ قرار دے کر قتل ہی کروا دیں۔

ہر وقت ہائے حسینؑ ہائے حسینؑ کہہ کر اونچا اونچا رونے والے ذاکرین جو آپکو امام حسینؑ کے بچوں کی پیاس تو سناتے نظر آئیں گے مگر اپنے وطن کی سرزمین پہ مرنے والے پیاسے بچوں کے لئے پانی کا بندوبست کرنے کا سنیں گے تو فوراَ اپنی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر غائب ہوجائیں گے۔

سچ تو یہ ہے اسلام آباد میں بیٹھے حکمران ہوں یا کراچی کے ساحل سمندر پہ عیاشی کرتی عوام، میڈیا ہو یا درباری پیر، دین دین کی رٹ لگاتے علامے ہوں یا ماتم کرتے ذاکر یہ سب کے سب بے حس درندے ہیں جو کسی نا کسی طرح سے تھر میں بھوکے پیاسے مرنے والے لوگوں کے قتل میں شریک ہیں۔

نوٹ : اگست کی گرمی جب ناقابل برداشت ہوئی تو تھر والے مظلوموں کا احساس ہوا تو یہ چند جلے کٹے الفاظ لکھ ڈالے۔