گزشتہ دو ہفتوں سے کمر کے مُہرے کی تکلیف میں تھا، شام کے زیارتی سفر میں تکلیف کی شدت میں اضافہ ہوگیا، ایک تو سفر کی تھکاوٹ اور پھر گروپ لیڈر ہونے کی وجہ سے اور زائرین کی خدمت کے لئے بھاگ دوڑ زیادہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نے مکمل بیڈ ریسٹ کی سختی سے تاکید کی، کچھ دوائیوں کا اثر اور کچھ کارو باری معاملات میں گڑ بڑ سے لکھنے کے لئے دل ہی نہیں کرتا تھا، مگر الحمداللہ اب پہلے سے بہتر ہوں، اور حقیقت تو یہی ہے کہ میری پہچان ہی ذکرِ اہل بیتؑ تھی، آلِ نبیﷺ اولادِ علیؑ کا ذکر میرے لئے آکسیجن کا کام کرتا ہے، یہ نہ لکھوں تو سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔
آج بھی شائد کچھ نہ لکھ پاتا مگر بعض اوقات انسان کی زندگی میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ جیسے حسینؑ کہہ رہے ہوں کہ میری طرف متوجہ ہو! کیونکہ میں ہی روحوں کا طبیب اور ٹوٹے دِلوں کا قرار ہوں، جیسے رب کا ذکر قلوب کا اطمینان ہے ویسے ہی حسینؑ کا ذکر بے قرار رُوحوں کا قرار ہے۔
میرے ساتھ ایک بزرگ اہل سنت خاتون کربلاء گئی تھیں، وہ جب چل نہ پاتیں تو میں انہیں وہیل چئیر پہ بٹھا کر لے جاتا تھا، جب سب زائرین شاپنگ کررہے تھے تو مجھے انہوں نے کہا کہ مجھے اصل خاکِ کربلاء لا کے دینا، اب کربلاء میں موجود دکانوں پہ اصل خاکِ شفاء تو ملتی نہیں تو اس حرم امام حسینؑ میں موجود نذورات کے دفتر سے کچھ ہدیہ دے کر ہم خاکِ کربلاء لے سکتے ہیں۔ میں نے وہ تربتِ حسینؑ اور خاکِ کربلاء سے بنی تسبیح ان بزرگ خاتون کو بطور ہدیہ پیش کی، میں نے پوچھا اماں اسے کیا کریں گی؟" انہوں نے جواب دیا "میرا پُتر اے راز دی گل اے بس" میں بھی خاموش ہوگیا۔
چند دن پہلے ان بزرگ خاتون کے شوہر کی وفات ہوگئی، مجھے دو تین بار کال کرکے کہا کہ مجھے آکر مل جاو، کربلاء کے سنگتی ہو، تمہارے ساتھ ملنے کو بہت جی چاہتا ہے، میں سفر میں ہونے کی وجہ سے جا نہیں پارہا تھا، آج انہیں کال کی، حال دریافت کیا، اماں رونے لگ پڑیں میں نے حوصلہ دیا کہنے لگیں"نہیں نہیں میں شوہر کی وفات پہ نہیں رو رہی" بلکہ مجھے حسینؑ بہت یاد آتے ہیں"۔
میں نے کہا اماں چلیں آپ کو پھر لے چلتا ہوں، کہنے لگیں اللہ نے اولاد دی نہیں ساری زندگی شوہر اور میں نے تنہاء گزاری، اب شوہر رہا نہیں ہے، گائیں بھینسیں رکھی ہوئی ہیں، اب میں چلی گئی تو ان کا خیال کون رکھے گا؟ میں نے کہا اماں پھر مولا حسینؑ کو یاد کرکے روتی بھی ہیں اور جانا بھی نہیں چاہتیں، کہنے لگیں یہ سچ ہے کہ تنہائی میں شدید گھبراہٹ ہوتی ہے، ہر وقت دل و دماغ پہ کربلاء نقش رہتی ہے، حرم مولا حسینؑ کی خوشبو، حرم حضرت عباسؑ کا جلال، بین الحرمین میں جنت کا سماں، مقام علی اکبرؑ و علی اصغرؑ پہ حسینؑ کی تنہائی، نہر علقمہ اور پھر سامراء میں اہل بیتؑ کی مظلومت بہت رلاتی ہے پر میرے پاس اس کا ایک علاج ہے۔
میں نے پوچھا مجھے بھی بتائیں ناں، کہنے لگیں یاد ہے وہ خاکِ کربلاء اور کربلاء کی مٹی سے بنی تسبیح، میں نے کہا بلکل یاد ہے، کہنے لگیں میرا سکون وہی ہے، نماز کے وقت جائے نماز پہ جب وہ دونوں سامنے پڑی ہوتی ہیں تو یوں لگتا ہے یہ مٹی کا لفافہ نہیں بلکہ حسینؑ کی قبر ہے، اور میں قریب ہی کہیں بیٹھ کر نماز پڑھ رہی ہوں۔
اس مٹی کو جب سونگھتی ہوں تو یوں لگتا ہے مقتل الحسینؑ میں حسینؑ کے پاکیزہ خون کی خوشبو ہے، اس خوشبو سے میری روح تروتازہ اور تمام غم ہوا میں غائب ہوجاتے ہیں۔
کبھی کبھی سادہ دیہاتی لوگ ہمیں کتنا بڑا فارمولا اتنے آسان الفاظ میں بتا دیتے ہیں جو ہزاروں روپے فیس لینے والے ڈاکٹر، ذاکر اور مولانا نہیں دے سکتے۔
ہمارے ہر گھر میں کربلاء کی خاک موجود ہے، جب بھی زندگی کی بھاگ دوڑ سے تھک جائیں تو اس خاک کو سونگھ کر اپنی سانسوں میں اتار لیں آپ حیران ہوں گے کہ ہر دکھ، تکلیف، گھبراہٹ، ڈیپریشن سے آزادی مل جائے گی، جو کربلاء گئے ہیں وہ حسینؑ کو بہت یاد کرتے ہیں جو نہیں جاسکے ان کی تڑپ بھی درد بھری ہوتی ہے، اس خاک سے جانے والے اور کربلاء نا پہنچ پانے والے دونوں مریضِ حسینؑ شفاء پاسکتے ہیں کیونکہ
نامِ حسین ابن علیؑ اینٹی ڈیپریشن ہے۔