مسجد کوفہ کے صحن میں ایک بڑا سا پانی کا حوض ہے، اس کے ساتھ ہی وضو کی جگہ بھی ہے اور پینے کے پانی کے لئے کولر پڑے ہوتے ہیں، مسجد کوفہ میں انبیاء کرام اور فرشتوں کے مصلے بھی موجود ہیں، وہ مقام بھی موجود ہے جہاں رسولِ کریمﷺ نے معراج پہ جاتے ہوئے یہاں رُک کر عبادت کی، آدم و حواؑ کا مقام اور مولائے کائنات علی ابن ابی طالبؑ کا محراب اور مقتل گاہ، اور جہاں آپ بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے ساتھ ہی حضرت مسلم بن عقیلؑ اور امیر مختار ثقفیؓ کی قبور بھی موجود ہیں۔
مسجد کوفہ کے صحن میں موجود یہ حوض وہ مقام ہے جہاں سے طوفانِ نوحؑ کے وقت پانی نکلا تھا اور پھر پوری دنیا کو تہس نہس کر گیا۔
مسجد کوفہ سے نکلتے ہی قریب مولا علیؑ کا گھر ہے اور کچھ فاصلہ پہ صحابی جلیل القدر حضرت میثمِ تمارؓ آرام پذیر ہیں۔
مسجد کوفہ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلہ پہ ایک عظیم الشان مسجد ہے جس کا نام "مسجد سہلہ" ہے۔
مسجد سہلہ مسجد کوفہ کی طرح اپنے اندر بہت سے راز دفن کئیے ہوئے ہے، دراصل یہ مسجد بعد میں بنی اس سے پہلے یہاں مختلف انبیاء کرامؑ کے گھر تھے، جن میں حضرت ابراھیمؑ، حضرت یونس، حضرت خضرؑ، حضرت ادریس، حضرت صالحؑ و حضرت نوحؑ شامل ہیں، یہیں آئمہِ اہل بیتؑ کے مقامات بھی ہیں جہاں یہ خدا کی برگزیدہ ہستیاں خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتی رہیں، مقامِ امام جعفر صادقؑ، مقامِ امام زین العابدینؑ اور مقام امام زمانہؑ موجود ہیں، اس مسجد میں عبادت کرنے کے لئے خاص اعمال بجالائے جاتے ہیں۔
امام زین العابدینؑ سے روایت ہے کہ مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز ادا کرنے والے کہ زندگی میں خداوند کریم دو سال کا اضافہ فرما دیتا ہے، اور کوئی پریشان حال شخص اگر اس مسجد میں دو رکعت ادا کرے تو رب تعالیٰ اس کی پریشانی دور فرما دیتا ہے۔ امام باقرؑ سے روایت ہے کہ خدا نے کوئی ایسا نبیؑ مبعوث نہیں فرمایا جس نے اس مسجد میں عبادت نہ کی ہو۔
امامِ زمانہ امام مہدیؑ جب خانہ کعبہ میں ظہور فرمائیں گے تواس کے بعد وہ کوفہ کو اپنا دارلخلافہ بنائیں گے اور مسکن اسی مسجد سہلہ کو ہی بنائیں گے۔ اسی مقام سے قیامت کا صور پُھونکا جائے گا۔
ایک روایت کے مطابق بنی ظفر کے سہیل نامی شخص نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔
حضرت نوحؑ کو جب اللہ رب العزت نے طوفان کی خبر دی اور کشتی بنانے کا حکم دیا، تو آپ نے لکڑی جمع کرکے کشتی بنانا شروع کی اور جو چند لوگ آپ کی نبوت پہ ایمان لائے تھے انہیں طوفان کی خبر دی اور کشتی بننے کے بعد اس میں سوار ہونے کے بارے بھی بتایا، تب ایک بوڑھی عورت جس کا نام "سہلہ" تھا وہ بھی ایک گھٹڑی میں اپنا سامان باندھ کر حضرت نوحؑ کے پاس پہنچی، حضرت نوحؑ نے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا آپ نے ہی کہا تھا کہ طوفان آنے والا ہے اس لئے میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں، آپؑ نے فرمایا ابھی نہیں ابھی تو میں کشتی تیار کر رہا ہوں، چند دن بعد پھر وہ عورت آئی آپ نے پھر یہی جواب دیا، پھر خدا کے حکم سے حضرت نوحؑ کے دماغ سے اس بوڑھی کو بھلا دیا، طوفان آگیا، آپ کشتی میں چند انسان اور جانوروں کے جوڑے لے کر نکل گئے اور اس بوڑھیا کوخبر دینا یاد نہ رہا، جب طوفان ختم ہوا تو آپؑ اسی مسجد کے مقام پہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ بوڑھی عورت اسی طرح سامان باندھے بیٹھی تھی، آپؑ نے پوچھا کہ میں آپ کو بتانا یاد نہ رہا مگر طوفان آکر چلا گیا، تب بوڑھی عورت نے حیرانی سے پوچھا کیا واقعی طوفان آکر گزر گیا؟ مگر مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا۔ حضرت نوحؑ نے فرمایا تمہیں تمہارے خدا پہ پختہ ایمان نے بچا لیا۔
اس بوڑھی عورت کے ایمان نے اتنے ہزار سال بعد بھی ہمیں یہ سبق دیا کہ جب ہم خدا پہ پختہ یقین رکھتے ہیں اور خدا کی محبت میں کام کرتے ہیں تو ہماری زندگیوں میں طوفان آتے ہیں، مشکلات آتی ہیں، دشمنیاں مول لینا پڑتی ہیں، موت و حیات کی کشمکش میں انسان زمانے کے تھپیڑے کھاتا رہتا ہے مگر خدا کی ذات پہ ایمان مضبوط ہوتو ایسے کئی طوفان آکر گزر جاتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔