1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. بھول جائیں

بھول جائیں

میرے بچپن میں ہمارے ہمسائے میں ایک پھڈے باز شخص آ گیاتھا، ہم لوگ گلی میں کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ ہماری وکٹیں اکھاڑ دیتا تھا، ہمارے گیند چھین لیتا تھا، وہ گلی میں نکل کر ہمارا کھیل بھی بند کرا دیتا تھا، میں بہت دل گرفتہ ہوتا تھا، میں نے ایک دن اپنے والد سے اس کی شکایت کی، میرے والد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا، بیٹا یہ شخص کرائے دار ہے، یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا۔

ہمیں اس سے لڑنے اور الجھنے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنا چاہیے، میں نے والد سے پوچھا، کیا میں احتجاج بھی نہ کروں، وہ بولے ہاں تم ضرور کرو لیکن اس کا تمہیں نقصان ہوگا، یہ شخص تو اپنے وقت پر جائے گالیکن تم احتجاج کی وجہ سے بدمزاج ہو چکے ہو گے، تم اس کے بعد لائف کو انجوائے نہیں کر سکو گے چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی زندگی پرتوجہ کرو، تم اپنی خوشیوں پر دھیان دو، یہ اور اس جیسے لوگ آتے اور جاتے رہیں گے، یہ آج ہیں اور کل نہیں ہوں گے۔ تمہیں اپنا مزاج خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بچہ تھا میں نے اپنے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمارا ہمسایہ واقعی دو ماہ بعد چلا گیا اور یوں ہم پرانی سپرٹ کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگے، ہم دو ہفتوں میں اس چڑچڑے شخص کو بھول بھی گئے۔

میرے والد مجھے بچپن میں اپنے چچا کی بات بھی سنایا کرتے تھے، ہمارے دادا فوت ہوئے تو میرے والد کو وراثت میں ایک مکان ملا، مکان پر میرے والد کے چچا نے قبضہ کر لیا، میرے والد نے چچا کے ساتھ لڑنے کی بجائے ملکیت کا مقدمہ کیا اور وہ آہستہ آہستہ مقدمہ لڑتے رہے۔ پانچ سال بعد میرے والد کے حق میں فیصلہ ہو گیا لیکن چچا نے مکان خالی نہ کیا، میرے والد نے قبضے کے حصول کیلئے درخواست دی اور وہ آہستہ آہستہ اس درخواست کا پیچھا کرتے رہے، اگلے دو برسوں میں والد کے چچا کا انتقال ہو گیا، والد کو مکان مل گیا، میرے والد کا کہنا تھا، چچا نے جب ہمارے مکان پر قبضہ کیا تو مجھے بہت غصہ آیا لیکن پھر میں نے سوچا، میں اگر ان کے ساتھ لڑتا ہوں تو میں زخمی ہو جاؤں گااور یوں یہ مکان پیچھے چلا جائے گا اور دشمنی آگے آ جائے گی، ہم تھانوں اور کچہریوں میں بھی جائیں گے۔ ہمارا وقت اور پیسہ بھی برباد ہو گا اور ہمیں مکان بھی نہیں ملے گا، چچا بوڑھے شخص ہیں، یہ کتنی دیر زندہ رہ لیں گے چنانچہ میں نے مقدمہ کیا اور آہستہ آہستہ مقدمہ چلاتا رہا یہاں تک کہ چچا طبعی زندگی گزار کرفوت ہو گئے، مجھے اپنا مکان بھی مل گیا اور میرے صبر کا صلہ بھی۔ میرے چچا نے جب مکان پر قبضہ کیا تھا تو وہ فقط ایک مکان تھا، آٹھ برسوں میں ہماری گلی کمرشلائزڈ ہو گئی، مکان کی قیمت میں بیس گنا اضافہ ہو گیا یوں مجھے مکان بھی مل گیا اور مالیت میں بھی بیس گنا اضافہ ہو گیا۔ میں اس دوران اطمینان سے اپنی دوکان چلاتا رہا میں نے اپنے بچے بھی پال لئے اور میں زندگی کی خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا، میرے والد مجھے یہ واقعہ سنانے کے بعد اکثر کہا کرتے تھے آپ جب بھی تکلیف میں آئیں آپ اس تکلیف کا دورانیہ کیلکولیٹ کریں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر لگا دیں، آپ کو وہ تکلیف تکلیف نہیں لگے گی۔

میں نے اپنے والد کی بات پلے باندھ لی چنانچہ میں تکلیف کا دورانیہ نکالتا ہوں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر مبذول کر لیتا ہوں۔ مجھے جب بھی کوئی تکلیف دیتا ہے میں دل ہی دل میں کہتا ہوں یہ آج کا ایشو ہے، یہ کل نہیں ہوگا، میں اس کی وجہ سے اپنا آج اور کل کیوں برباد کروں اور میری تکلیف ختم ہو جاتی ہے مثلاً کوئی شخص میرے ساتھ دھوکہ کرتا ہے۔ ، میں اس شخص اور دھوکے دونوں پر قہقہہ لگاتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں، یقین کرو وہ دھوکہ اور وہ شخص دونوں چند دن بعد میرے لئے بھولی ہوئی داستان بن چکے ہوتے ہیں۔

زندگی ایک مختصر سفر ہے اور ہم اگر اس مختصر سفر کو شکایت دفتر بنالیں گے تو یہ مختصر سفر مشکل ہو جائے گا، ہم اپنی منزل سے ہزاروں میل پیچھے اترجائیں گے چنانچہ جانے دیں، تکلیف دینے والوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی، صرف سفر پر توجہ دیں اور یقین کریں ہماری مشکل، ہماری تکلیف ختم ہو جائے گی۔