دو سگے بھائی بہت اتفاق سے رہتے تھے دونوں ملکر اپنی زمینوں پہ محنت کرتے تھے، محنت کرتے کرتے دونوں اپنے علاقہ کے بڑے زمینداروں میں شمار ہونے لگے، ایک دفعہ دونوں کے اس اتفاق کو نظر لگ گئی اور لڑائی بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچی کہ دونوں نے زمینیں الگ کر لیں دونوں کی زمینوں کے درمیان نہر گزرتی تھی، ایک دن چھوٹے بھائی نے اپنی طرف والے نہر کے کنارے پہ لوہے کی کانٹے دار تاروں کی باڑ لگا دی یہ دیکھتے ہوئے دوسرے بھائی نے ایک مستری کو بلایا اور کہا کہ نہر کے اس کنارے پہ دس فٹ اونچی دیوار کھڑی کر دو میں اپنے بھائی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا، مستری نے جگہ کا معائنہ کیا اور اس شخص کو بولا کہ آپ میٹریل منگوا دیں اس زمیندار نے مستری کو پیسے دئیے کہ خود ہی سارا سامان خرید لے آئے اور اس دیوار کو رات میں تعمیر کرنا تاکہ میرا بھائی صبح اٹھے تو اپنے اور میرے درمیان بڑی سی دیوار دیکھنے کو ملے، مستری پیسے لے کر تعمیراتی سامان لینے چلا گیا شام کو چند مزدور اور سامان لے کر پہنچ گیا زمیندار گھر چلا گیا اور مستری نے کام شروع کر دیا زمیندار جب صبح اٹھا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں دیوار تو دور ایک اینٹ بھی نا لگی تھی جب نہر کے کنارے پہ پہنچا تو دیکھتا ہے کہ اس نہر پہ کھجور کی لکڑیاں رکھ کر ایک خوبصورت پل بنا ہوا تھا اتنے میں دوسری طرف سے اسکابھائی بھی آگیا جب دونوں نے پل کو دیکھا تو بے اختیار مسکرا دئیے اور اسی پل کے درمیان کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے گلے لگ گئے، زمیندار نے مستری سے کہا کہ ناشتہ کرکے جائےمستری نے اپنے اوزار اکھٹے کرتے ہوئے اسے جانے کی اجازت دی جائےاس نے ابھی اور بھی پل بنانے ہیں۔
ہم سب میں ایک خامی موجود ہے چاہے ہم اسکو تسلیم نا کریں وہ یہ کہ جب ہم اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں ہونے والی لڑائی کی خبر سنتے ہیں تو ہماری حتی الامکان کوشش ہوتی کہ یہ لڑائی مزید بڑھے اور انکے درمیان فاصلے پیدا ہوں اور ہم دوربیٹھے اس تماشے کا مزا لیں، اگر کسی بیٹی یا بیٹے سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو ہم اس پہ پردہ ڈالنے کی بجائے اس کو اور زیادہ اچھالتے ہیں کیونکہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے رشتہ داروں کی خوب جگ ہنسائی ہو، اسی طرح اگر کسی ساس بہو کا جھگڑا سنیں تو ہم دونوں کا ساتھ دیتے ہیں اسکو مظلوم بنا کر دوسری کو ظالم ثابت کرتے ہیں اور غلط فہمیاں دور کرنے کی بجائے مزید جلتی پہ تیل کا کام کرتے ہیں، شوہر و بیوی میں غلط فہمیاں پیدا کرکے کوشش ہوتی ہے کہ یہ گھر اجڑ جائے، باپ بیٹے، بھائیوں کا آپس میں جھگڑا ہو تو ہم دونوں کے ہمدردبن کر ان کو مزید ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس رویہ سے ہمارے رشتہ داروں کو نقصان پہنچے گا اور ہمیں فائدہ تو ہماری یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہوتی ہے کیونکہ لڑنے والے تو ایک دن مل جاتے ہیں مگر لڑوانے والے کبھی سکون نہیں پاتے۔ ہمیں دوسروں کے درمیان نفرت کی دیوار نہیں بننا بلکہ محبت کی پُل بننے کی کوشش کرنی ہوگی یہی انسانیت ہے یہی دینیات ہے۔