اکثر ایسا ہوتا ہے ہم سوشل میڈیا پہ اپنے کسی دوست کو انباکس میں میسج کرتے ہیں مگر کئی گھنٹوں تک جواب نہیں آتا اسکو کال کرتے ہیں تو کوئی کال وصول نہیں کرتا پھر چند گھنٹوں بعد اس دوست کے جنازے کی تصویر کسی دوسرے کی وال پہ دیکھنے کو ملتی ہے تو انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے کہ یہ اچانک کیسے ہوا ابھی صبح تو ہم بات کررہے تھے کمنٹس میں ایک دوسرے کو طنز و تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ان مرنے والوں میں ہم بھی کبھی شامل ہوں گے کوئی ہمارے میسج کا انتظار کر رہا ہو گا لیکن ہم ایک تاریک گڑھے میں تن تنہا لیٹے ہوں گے جہاں وقت گزاری کے لئے نا کسی سے چیٹ کرپائیں گے اور نا ہی کوئی مزاحیہ ویڈیو سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے وہاں تو بس اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا ہوگا اور ہمارے اس جواب کے بدلے میں جزا یا سزا ملے گی۔
مولائے متقیان علی ابن ابی طالب ع کا فرمان کا مفہوم ہے کہ قبر جنت کا باغ بھی بن سکتی ہے اور جہنم کا گڑھا بھی۔ یہ ہم پہ منحصر ہے ہم اپنی قبر کو کیا بناتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا ہماری عام زندگی کوشش یہ کرنی چاہئیے کہ ہمارا کوئی ایک عمل ایسا نا ہو جو ہماری قبر کو جہنم کا گڑھا بنائے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا وہ واقعہ سب کو معلوم ہے جب حسنین کریمین ع بیمار ہوئے تو سیدہ ع نے تین دن لگاتار روزہ رکھا اور روز ہی افطاری کے وقت کوئی نا کوئی سائل تطہیر کی ملکہ کے در پہ آجاتا تو سیدہ کائینات کھانا سائل کو عطاء کردیتیں۔ اسی طرح امام علی ع کو جب ضرب لگی تو کوفہ کے یتیم دودھ کے پیالے لے کر مولاع کے گھر کے باہر جمع ہوگئے کیونکہ امام علی ع یتیموں سے کہتے کہ اگر تمہیں کوئی یتیم کہے تو کہنا میرے بابا علی ابن ابی طالب ع ہیں یتیموں کی پرورش کیسے کی جاتی ہے انہوں نے اپنے والد جناب ابوطالب علیہ السلام سے سیکھا۔
ان دو واقعات کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم خود کو شیعان علی ع کہتے ہیں کیا ہم اپنے آقا علی ع کی سنت پہ عمل کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے اردگرد رہنے والے یتیم، مسکین، محتاجوں کا خیال رکھ رہے ہیں؟ گھر میں نوحے لگے ہوئے ہوں اور ہم بیٹھے رو رہے ہوں اور ہمارے دروازے پہ فقیر آجائے اور ہم اسکو ڈانٹ کر خالی لوٹا دیں تو کیا خیال ہے سیدہ النساء العالمین س ہم سے راضی ہوں گی؟ ہم سید الشہداء ع کی یاد میں مجلس کروا رہے ہو دس بارہ ذاکرین کو مدعو کیا ہو ہر ذاکر کو پچاس ہزار مجلس کا دیں اور پندرہ سولہ دیگیں پکا رہے ہوں اور اپنے ہی خاندان میں ایسی بچی بیٹھی ہو جس کی شادی غربت یا جہیز کی وجہ سے نا ہوپارہی ہو تو کیاکربلا والے راضی ہوں گے؟
زندگی بہت مختصر ہے شائد ہم میں سے بھی کسی کا کسی دن میسج کا جواب نا آئے اور لوگوں کو ہمارے جنازے کی اطلاع ملے اس وقت سے پہلے اپنے اردگرد رہنے والے یتیم و مستحق افراد کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کرکے خدا کو قرض حسنہ دیں ہمارے واجبات تو شائد قبول ہوں نا ہوں لیکن قبر کی اندھیری کوٹھڑی کو جنت کا باغ بنانے کے لئے خدا کو دیا ہوا قرض ضرور کام آئے گا۔