1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. پاٹی لِیر(کاٹنوں میں اٹکا پھٹا ہوا کپڑا)

پاٹی لِیر(کاٹنوں میں اٹکا پھٹا ہوا کپڑا)

میری والدہ اپنی زندگی کے آخری ایام ہسپتال کے ایک کمرے میں بے ہوشی کی حالت میں گزار رہی تھیں اور میں ملک سے باہر تھا قانونی کاغذات نا ہونے کی وجہ سے واپس نا آسکتا تھا۔ اس دوران میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا میرے ساتھ والا لڑکا بہت زیادہ زخمی ہوگیا تھا لیکن مجھے چھوٹی موٹی چوٹیں آئیں کسی نے ہسپتال میں آکر میری بیوی کو بتایا کہ علی بھائی کی گاڑی کے ساتھ بہت برا حادثہ پیش آیا ہے میری والدہ کے کانوں پہ یہ الفاظ پڑنے کی دیر تھی کہ انکو ہوش آیا اور ساتھ ہی خون کی اُلٹی آگئی ڈاکٹروں کے مطابق انکا جگر پھٹ چُکا تھا اور وہی خون کی اُلٹیاں انکی زندگی کے خاتمے کا ذریعہ بنیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب ڈاکٹر نے میرے گھر والوں کو کہا کہ مریض کو گھر لے جائیں انکے بچنے کے اب کوئی امکان نہیں تو میری امی کی سانسیں اُکھڑی ہوئیں تھیں اور ایمبولینس میں میری بیوی سے کہہ رہی تھیں کہ علی سے بات کروا دو میں نے اس کی آواز سن لی تو آسانی سے مر سکوں گی یوں میری روح تڑپتی پھرے گی کہ پتہ نہیں میرے بیٹے کا حادثے کے بعد کیا حال ہوا گا۔ میری بیوی نے مجھے کال کی میں نے صرف کہا امی میں ٹھیک ہوں اور امی یہ سُن کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔
میری اپنی اولاد ہونے کے بعد مجھے اب شدید یہ احساس ہوتا ہے کہ میری ماں واقعی سچی تھی جو میری محبت میں پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر پھرتی تھی مجھے کہتی تھیں کہ علی اصغر جب تم اولاد والے بنو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ اگر اولاد کو کچھ ہوجائے تو والدین پاٹی لیر(پھٹا ہوا کپڑا جو کانٹوں کی جھاڑیوں میں اُلجھ کر پھٹ جائے) کی طرح کانٹوں میں اٹکے رہتے ہیں۔ میری بیٹی یا بیٹے کو ذرا سی تکلیف ہوتو واقعی میری روح اسی کانٹوں پہ اٹکے کپڑے کی مانند ہوجاتی ہے۔
پچھلے دو ہفتوں میں تقریباَ تین بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد بری طرح قتل کر کے پھینک دیا گیا، ایک چھوٹی بچی جس کے ساتھ کسی درندے نے زیادتی کی اور اس کو سردی میں بےہوشی کی حالت میں پھینک دیا اور وہ بچی سردی میں تڑپ تڑپ کر مر گئی جب اس بچی کے والد کو بیٹی کی لاش ملی تو وہ اس بچی کے چھوٹے سے چہرے کو عجیب حیرانی پریشانی کی حالت میں چُپ بیٹھا دیکھ رہاتھا مجھ سے وہ تصویر دس سیکنڈ سے زیادہ نا دیکھی جا سکی میرے آنسو ٹپک پڑے میں نے اپنی بیٹی کو اٹھا کر سینے سے لگایا اللہ ہی جانے اس والد نے اپنی بیٹی کی اس تکلیف دہ موت کو کیسے برداشت کیا، پھر اسی طرح ضلع بھکر کے گاوں کوٹلہ جام میں سات سالہ بچےکے ساتھ درندگی کی گئی اور اس دفعہ توظلم کی حد ہی پار کر دی گئی بچے کے کئی ٹکڑے کر کے مختلف جگہوں پہ پھینک دیا گیا اب ہر دو چار دن بعد کبھی ایک ٹانگ ملتی ہے تو کبھی ایک بازو ملتا ہے اور ابھی تک سر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا خدا ہی جانے وہ والدین کیسے زندہ ہوں گے جنکو انکے جگر کے ٹکڑے کے ٹکڑے قسطوں میں مل رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیاگیا اور شاید ایک سو بھی قاتل گرفتار نا ہوئے ہوں اور جو گرفتار ہوگئے ان میں سے شائد دس کو بھی سزا نہیں ملی۔ ہمیں سوشل میڈیا کو اپنی آواز بناتے ہوئے حکومت تک یہ مطالبہ پہنچانا ہوگا کہ ایسی درندگی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہے اور بیچ چوراہے میں تلوار سے انکی گردن کاٹی جائے یقین جانیے اگر ایک کو ایسی سزا دی جائے تو پھر کسی کی دوبارہ ایسا ظلم کرنے کی جرآت نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے کے خدانخواستہ اگلا بچہ ہمارا ہو۔ ہمیں اپنے بچوں پہ خوب نظر رکھنی ہوگی اورکسی اپنے پہ بھی بچوں کے معاملہ میں بھروسہ مت کریں۔ بچوں کو اکیلا کہیں بھی مت بھیجیں۔
اکثر مجالس میں ذاکرین دورانِ مصائب کہتے ہیں کہ خدا آپکو کبھی اولاد کے دُکھ نا دکھائے۔ واقعی اولاد کا دُکھ بہت بڑا درد ہوتا ہے یہ تو کوئی ان سے پوچھے جن کے لال اس تکلیف دہ موت سے مارے گئے اب جب تک وہ والدین زندہ رہیں گے انکی رُوح اس پاٹی لیر کی طرح کانٹوں میں اٹکی رہے گی۔
خدا سب کے بچوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین