1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. توفیقِ سجدہ

توفیقِ سجدہ

بچپن میں جب میلہ دیکھنے جایا کرتے تھے تو چڑیا گھر کے باہر لکھا ہوتا تھا افریقہ کے جنگلوں سے پکڑی ہوئی لومڑی دیکھو جس کا سر خوبصورت لڑکی کا اور دھڑ لومڑی کا ہے۔ بچے، بڑے سب بڑی حیرانگی سے دیکھا کرتے تھے، بلکہ اکثر مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں کہ اگر پڑھائی نا کی تو اس لڑکی کی شکل والی لومڑی کو بلا لوں گی وہ آکر کھا جائے گی۔ بہت عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ دراصل لڑکی ہی ہوتی تھی بس ایک سوراخ سے سرنکال کر بیٹھی ہوتی تھی پیچھے دھڑ ایک مردہ لومڑی کا رکھا ہوتا تھا۔

میں نے زندگی کو بھی اس لومڑی جیسا ہی پایا ہے جس کا سامنے نظر آنے والا سر تو بہت خوبصورت ہے لیکن اس کا دھڑ دراصل مردہ اور بدبودار ہے۔ یہ زندگی کی ظاہری رونقیں اس دھوکہ جیسی ہیں جو چڑیا گھر والوں نے بچوں کو نقلی انسانی شکل والی لومڑی دکھا کر دیا تھا۔ ہم جب بچن سے جوانی کی طرف قدم رکھتے ہیں تو ہمیں زندگی بہت سہانی نظر آتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے ہم سے بڑھ کر کوئی اس دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ زندگی پھولوں کی سیج معلوم ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے ہم اس زندگی کے میلے میں داخل ہوتے جاتے ہیں ہم پہ یہ ساری غلط فہمیاں آشکار ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جس کو ہم پھولوں کی سیج سمجھ رہے تھے دراصل وہ ایک کانٹوں کی سیج ہے جس پہ ہم سب نے سونا ہے۔

ہم سب اپنی اپنی زندگی میں کسی نا کسی مسئلہ کا شکار ہیں۔ کوئی بے اولاد ہے تو کسی کی اولاد معذور، کسی کی اولاد خوبصورت ہے مگر نافرمان اور آوارہ، کسی کا رشتہ نہیں ہورہا تو کسی کا گھر بننے کے بعد ٹوٹ گیا، کسی کے پاس کھانے کو ایک لقمہ نہیں تو کسی کے پاس بے پناہ دولت ہے مگر خود کسی موزی مرض کا شکار ہے، کوئی مقروض ہے تو کوئی بےروزگار، ہمارے قریبی رشتے بھی اس وقت تک ہمارے ہیں جب تک ہم انکی توقعات پہ پورا اتر سکتے ہیں۔ ادھر آپکا عروج زوال میں بدلا نہیں ادھر سب اپنے پرائے ہوئے نہیں۔ ماں باپ خالص رشتہ ہے لیکن وہ بھی تب تک جب تک وہ زندہ ہوں۔ بہن بھائی بیوی بچے رشتہ دار دوست احباب یہ اس وقت تک ہم پہ جان نچھاور کریں گے جب تک ہم اس قابل رہیں گے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنی دولت کی مستی میں ایک بدمست ہاتھی بن کر اپنے سے کمزوروں پہ ظلم ڈھاتے ہوں گے، کسی کو اپنی جاگیر پہ ناز تو کسی کو اپنی جوانی پہ غرور ہوتا ہوگا لیکن وقت جب پلٹی کھاتا ہےتو ایسے لوگ یا تو ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں نہایت تکلیف دہ وقت گزار رہے ہوتے ہیں یا پھر کہیں انتہائی غربت میں گمنانی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔منرل واٹر پینے والے صدقہ خیرات سے بچوں کا پیٹ پال رہے ہوتے ہیں۔

یہ زندگی ایک ٹائر کی مانند ہے کبھی نیچے والا حصہ اوپر تو کبھی اوپر والا نیچے آتا رہتا ہے۔ ہم پہ عروج ہو یا زوال ساری دنیا چھوڑ جاتی ہے نہیں چھوڑتا تو ہمیں ہمارا رب کبھی بھی نہیں چھوڑتا ہم ہی اپنے عروج کے تکبر میں اسکو بھول جاتے ہیں وہ تو ہمیں ہمارے زوال میں بھی ویسی محبت کرتا ہے جیسے عروج کے وقت پہ کرتا تھا۔

ہم پہ وقت جیسا بھی ہو ہم بادشاہ ہوں یا فقیر ہوں ہمیں ہروقت خدا سے ایک ہی دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہم سے کبھی بھی توفیقِ سجدہ نا چھینے کیونکہ ہزاروں ایسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جنکے پاس سب کچھ ہے نہیں ہے تو توفیقِ سجدہ نہیں وہ دنیا کے میلے میں اس چڑیا گھر کے اس جھوٹ کو دیکھنے میں مشغول ہیں جس کا سر خوبصورت عورت اور دھڑ لومڑی جیسا ہے انکو اس دھوکے کے احساس اس وقت ہوگا جب موت نے دستک دے دی۔

رب ذولجلال ہمیں ہمیشہ اپنی بارگاہ میں سجدہ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے بحق سید الساجدین علیہ السلام۔