1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. زندگی دھوپ تم گھنا سایہ

زندگی دھوپ تم گھنا سایہ

حکمِ خدا سے جب ایک بچہ ماں کے پیٹ میں خلق ہوتا ہے تو ماں اسکو خدا کی طرف سے دیا گیا تحفہ سمجھ کر خوشی سے قبول کرتی ہے اور پھر اس بچے کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کرتی ہے۔ عام دنوں میں جو عورت اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی حاملہ ہونے کے بعد وہ اپنے بچے کی خاطر اچھی خوراک کھاتی ہے، پھر یہ نو ماہ کیسے مختلف تکالیف میں گزرتے ہیں یہ تو کوئی اس ماں سے پوچھےاور جب بچہ پیدا ہونے کا وقت آتا ہے تو بھی عورت کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا لیکن جب اللہ کریم کے کرم سے بچہ اس دنیا پہ آجاتا ہے تو اس عورت کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ ماں بننے کے بعد اس کی زندگی یکسر تبدیل ہوجاتی ہے دن کا سکون اور رات کا چین بالکل ختم ہوجاتا ہے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام انسانی بچہ پالنا ہے، رات کو کئی بار اٹھ کر بچے کا پیمپر تبدیل کرنا اسے دودھ پلانا پھر صبح اٹھتے ہی گھر کے کاموں میں جُت جانا، گویا کہ ماں بننے کے بعد عورت کی زندگی کامقصد صرف اپنے بچے کی پرورش کرنا ہے۔ اپنے ماں باپ بہن بھائی حتیٰ کے شوہر تک سے زیادہ اپنا بچہ عزیز ہوجاتا ہے۔ بچہ جیسے جیسے بڑاہورہا ہوتا ہے ماں کی محبت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ماں کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف اسکی اولاد بن جاتی ہے، ماں چاہتی ہے اس کا بچہ ہرلمحہ اس کے سینے سے چمٹا رہے، پھر بچہ جب سکول میں جانے لگتا ہے تو ماں سارا دن انتطار کرتی ہے طرح طرح کے کھانے اسکے لئے تیارکرتی ہے اور چاہتی ہے اسکے بچے کی دوسرے بچوں سے زیادہ اچھی صحت ہو، بچہ سکول سے آتا ہے تو ماں چاہتی ہے اس سے لاڈ پیار کرے اور اک لمحہ بھی اپنی آنکھ سے اوجھل نا کرے، بچہ جیسے جیسے جوانی کی طرف قدم رکھنے لگتا ہے ویسے ویسے ماں کی محبت میں اضافہ اور بچے کی توجہ ماں کی طرف کم اور کھیل کود اور دوستوں کی طرف زیادہ ہونے لگتی ہے، کھیل کود دوست یہ سب بچوں کی لئے ہمیشہ سے تفریح کا ذریعہ بنتے رہے ہیں بچے کی خوشی کے لئے ماں یہ سب کچھ قبول کر لیتی ہے پھر بچہ پڑھائی سے فارغ ہوتا ہے جیسے تیسے کرکے والدین اسے کالج میں داخل کرواتے ہیں کالج جاتےہی بچہ مزید ماں باپ سے دور ہونےلگتا ہے۔ بچے کے بہتر مستقبل کے لیے ماں باپ بچے کی جدائی بھی برداشت کر لیتے ہیں، پھر بچہ روزگار کے سلسلے میں شہر سے باہر یا ملک سے باہر کا سفر کرتا ہے تو ماں دل پہ پتھر رکھ کر بچے کو خود سے دور کردیتی ہے کیونکہ ماں چاہتی ہے اس کا بچہ دنیا میں کامیاب ہو اور اس کا مستقبل روشن ہو، لیکن بعض اوقات بچے روزی کمانے دور چلے جاتے ہیں اور پیچھے ماں بچے کی جدائی برداشت نہیں کرپاتی اور ہمیشہ کے لیے قبر میں جا سوتی ہے اور جو بچہ اس سے اک پل دور نا رہتا اس ماں کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکتا۔

ہر ماں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھے اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کی شادی کرے اسکی دلہن گھر لے آئے لیکن وہی بیٹا جس کو پیٹ میں خلق ہونے سے لیکر اس بچے کی شادی تک ماں نے پل پل مر کے گزار کر پالا اسی ماں کی محبت کو بھول جاتا ہے، جو بچہ ماں کے سینے پہ سونے کا عادی ہوتا ہے وہی بیٹا کئی کئی دن تک ماں کے کمرے میں نہیں جاتا ماں راہ تکتی رہتی ہے کب اس کا لخت جگر کام سے واپس آئے اور دو گھڑی اس کے پاس بیٹھےوہ اسے جی بھر کر دیکھ سکے، پھر جب اس بیٹے کے بچے ہوجاتے ہیں تو مزید وہ اپنی ماں سے دور ہوجاتا ہے اور آخر ایک دن ماں باپ کو چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو لے کر الگ جا بستا ہے اور ماں باپ کبھی کسی بیٹی کے گھر تو کبھی کسی بیٹے کے گھر کے دھکے کھا کھا کر آخر مر جاتے ہیں۔

بے شک بیوی بچوں کی محبت اور انکی ذمہ داری نبھانا ہم پہ فرض ہے لیکن ماں باپ کا حق ان سے زیادہ ہے ہم بیوی بچوں کے آنے کے بعد اس ماں کو بھول جاتے ہیں جس نے پتہ نہیں کتنی سختیاں جھیل کر ہمیں پالا اور اس باپ کی پرواہ نہیں کرتے جس نے خود بھوکا رہ کر ہماری خواہشات کو پورا کیا۔ جن کے والدین زندہ ہیں انہیں چاہیے اپنے والدین کو وقت دیں انکا خیال رکھیں اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ہیں اگر زندگی میں انکا حق ادا نہیں کیا تو اب انکے نام کا صدقہ خیرات کرکے انکی قضا نمازیں پڑھ کر حق ادا کریں۔

ہم چاہے دنیا کے جتنے بھی طاقتور ترین انسان بن جائیں روپیہ پیسہ کی ریل پیل ہو بیوی بچے ہوں، گاڑیاں بنگلے ہوں چاہے دنیا کی ہر نعمت ہو لیکن جب بھی ہلکا سا بخار بھی ہو تو فوراَ بیوی بچے نہیں بلکہ والدین یاد آتے ہیں اور والدین تو دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنے بچوں کے لئے رحمت ہوتے ہیں۔

دنیا کی مصیبتوں کی تیز دھوپ جب ہمیں جھلساتی ہے تو والدین کی قبریں ہی ہمارے لئے گھنا سایہ ثابت ہوتی ہے باقی سب وقت آنے پہ چھوڑ جانے والے ہیں۔