آجکل کرونا پوری دنیا پر ایک دہشت خوف اور ڈپریشن کی طرح سوار ہے، موجودہ دور کا انسان تین سوسال ترقی کے بعد اس زعم میں مبتلا ہو گیا اگر پیسہ وسائل اچھے ملک میں آپ ہیں تو آپ کی زندگی کا پُر سکون کامیاب خوشگوار اور حفاظت سے گزر سکتی ہے۔ علاقے میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جو یہ کہہ کر پاکستان چھوڑ گئے کہ یہاں حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔ سکیورٹی کے انتظامات پورے نہیں ہوتے۔ دن دھاڑے راستوں پر ڈکیٹیاں ہو جاتی ہیں۔ محنت و مشقت سے اکٹھی کی گئی جمع پونجی ایک پل میں لٹ جاتی ہے۔ ہم پڑھ لکھ گئے ہیں اور ہمارے پاس وسائل بھی ہیں تو کیوں نہ ہوم کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کرسیٹ ہو جائیں۔ کچھ لوگوں کی سوچ کے ساتھ انہوں نے کر دکھایا جو ان ممالک میں جا کر رہائش پذیر ہوگئے اور اپنا نظام ِ زندگی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ باہر جا کر اپنے عزیزواقارب کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ آپ بھی باہر ہی آجاو۔ یہاں تو دولت مند لوگوں نے خوب لوٹ مار کی اور اور جا کر باہر سیٹل ہو گئے۔ اور لوگ اس بات کو بھول گئے کہ ان سب کا ایک مالک بھی ہے اس نے چند صدیاں آپ پر گرفت ڈھیلی چھوڑ دی آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اس دھرتی پر میرا قانون اور مرضی چلے گی جبکہ یورپ پاکستان کے لوگ خدا کو مکمل بھول بیٹھے تھے۔ بلکہ اگر کوئی خدا کی بات کرتا بھی تو اس پر دقیانوسی الزامات لگائے جاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ٹیکنالوجی کے گھوڑے پر سوار قوموں کو تھوڑا سا جھٹکا کرونا کی شکل میں دیا۔ جو لوگ اپنی اپنی منصوبہ بندیاں پلان کر بیٹھے تھے کہ ہم نے روپیہ کما لیا ہے ترقی یافتہ ممالک میں سیٹل ہو گئے، ترقی اور معاشی استحکام کے گھوڑے پر سوار قومیں حیران و پریشان کہ یہ کیا ہم تو خود ہی خدا بن کر بیٹھے تھے کہ اپنی اتنی شاندار ترقی اور مالی استحکام اور طرز حکومت بنا لیتے ہیں اب ہمیں کوئی تنگ نہیں کر سکتا لیکن یہی ان غرور کے پُتلوں زمین کے فرعونوں کی غلطی تھی۔
آج کا ترقی یافتہ ابھی بھی اس وبا کے اسباب اور وجہ کو دریافت نہیں کر پایا۔ اس میں ایک راز پنہاں ہے کہ تم جو اپنی مصنوعی ترقی کے غرورو میں بدمست ہاتھی بن گئے ہو یہ تمہاری مصنوعی ترقی ہے ایک جھٹکے کی مار سے سنبھل جاو، اور فطرت کی طرف آ جاواور مصنوعی طاقت کے سیراب سے نکل کر حقیقت کی طرف آ جاو کہ حقیقت کیا ہے۔ کہ اس پر انسانوں کا نہیں خدا باری تعالیٰ کا قانون نافذ ہو گا، خدا کا قانون اور طرز معاشرت قرآنِ کریم اور آقا تاجدار حضور نبی کریم ﷺ کی زندگی اور احادیث کی شکل میں واضح کر کے بنا دی گئی۔ جب تک ہم خدا کو اپنا حقیقی راہبر اور مالک نہیں مانے گے تب تک کرونا سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ ہماری سلامتی اور بقااسی میں ہے کہ ہم اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور اس بے نیاز سے معافی مانگیں تاکہ وہ ہم کو معاف کرنے کے ساتھ ساتھ سیدھے راستے پر چلائے۔ لوگ اس بات سے پریشان ہیں کے اب ہم اپنے ہی گھروں میں قید ہو کر رہے گئے ہیں۔ اور کتنا عرصہ ہمیں اس مشکل کا سامنا کرنا ہو گا۔ کب تک ہمارا یہ مسئلہ حل ہو سکے گا۔؟ کیسی آفات جو ہم پر نازل ہو رہی ہیں۔ ایسے بہت سے سوال جو ذہنوں میں لئے ہوئے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے احباب سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ ایسی آفات اور امتحانوں کی گھڑیاں ہر قوم پر آتی رہی ہیں۔ لیکن ان سے نکلے کے لیے موثر اقدام کرنا پوری قوم کی ذمہ داریاں ہے۔ رد عمل کی مثال لی جائے تو کرونا کے باعث چین جنوبی کوریا اور جرمنی نے فوری اقدام کئے، فوری معاملے کے سنجیدگی کو سنبھا لاک ڈاون اپنایا اور اپنے ہر شہری کو ٹیسٹ کے عمل سے گزرا، متاثرہ لوگوں اور بوڑھوں اور بچوں کو الگ الگ کر دیا۔ دوسری طرف اٹلی سپین فرانس اور امیریکہ جیسے ممالک معاشی ترقی جدید ترین نظامِ صحت اور معاشی ترقی کے گھُمنڈ میں رہے کہ ہمارے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے اور ہم اس وبا کا بخوبی مقابلہ کر لیں گے۔ لیکن ان کی بربادی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی جس کا تماشہ ساری دینا دیکھ رہی ہے۔ امریکہ کو جتنا اپنے وسائل اور ٹیکنالوجی پر بھروسہ تھا ان کا غرور خاک میں مل گیا اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ متاثرین امیریکہ میں ہیں۔ ان کا بےوقوفوں والا ردِ عمل ان کو برباد کر گیا۔ اور متاترہ مریضوں کی تعداد نو لاکھ سے بھی تجاوز کر رہی ہے۔
اب ہم عام آدمی کی طرف آتے ہیں، وہ یہ کہ کرونا کی وبا پھوٹ پڑی تو اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا سماجی کاروباری خاندانی زندگی پر بہت برا اثر پڑا اب جب مشکل وقت آگیا ہے تو اس کو گزار لیا جائے کیونکہ اگر آپ رو پیٹ کر بھی گزاریں تو بھی وقت اپنی رفتار سے ہی گزرے گا۔ اور آپ کے رونے پیٹنے سے حالات ٹھیک نہیں ہو جانے اور نہ ہی مستقبل کے وسووسوں سے آپ خوش ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں صرف اور صرف اپنی موجودہ خوشیوں اور اللہ کی موجودہ نعمتوں کا احساس کر کے اس سے لطف اندوز ہوں، دوسری بات اس دنیا میں کامیاب پر امن معاشرے اور سکون کے لئے اچھے صالح شہریوں کی بہت ضرورت ہے جن سے مل کر اجتماعی معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ اس لئے اللہ رب العزت نے اپنا تصور اتارا کہ تمہارا ایک خدا ہے جو تم سے ستر ماوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ اس مہربان خدا سے دوستی لگا لو کیونکہ تاریخ انسانی کا ورق ورق پڑھ لے جس نے خداکو دل سے روح سے مان لیا وہ یہاں بھی کامیاب اور اگلے جہاں میں بھی کامیاب ٹھہرا۔ دوسرا پھر وہ زمینی خداوں کے خوف اور مستقبل میں آنے والی پریشانیوں سے بھی نجات حاصل کرلیتا ہے۔ آپ اپنی زندگی خیالات اور دماغ میں خدا تعالیٰ کو لے آئیں گے تو اگلے ہی لمحے ہر قسم کے دکھ تکلیف خوف و غم اور وسوسے سے آزاد ہو جائیں گے۔ عبادت مذہبی احکامات آپ کے مشکلات پریشانیوں سے دور کر دیتے ہیں۔ دوسرا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تم اطمینان قلب یعنی دل کا سکون چاہتے ہو تو میرا ذکر کرو اپنی زبان کو میرے ذکر سےتر رکھو، ہر سانس کے ساتھ میرے نام کی تلاوت جاری و ساری رکھو۔ اُٹھتے بیٹھتے کروٹیں لیتے میرا ذکر بلند کرو۔ آج کا انسان موجودہ حالات و مادیت پرستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ س دور ہو گیا تھا۔ بے پناہ مصروفیت میں اپنے خدا سے ہمکلام ہونا (نماز) بھول چکا تھا۔ اسے ذکر خدا کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ اب خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کو جس سے ستر ماوں جتنا پیار کرتا ہے موقع دے رہا ہے کہ قرآنِ کریم کو اپنے اندر اُتاریں، اس ذاتِ بےنیاز سے ہمکلامی کریں۔ اس کے ساتھ اپنی خوشیاں غم بانٹتیں رہیں۔ اور موجودہ انسان جس ترقی و ٹیکنالوجی کے غرور کی وجہ سے اُڑ راہا تھا اس مالک جبار و قہار کی صفت کے حامل رب تعالیٰ نے زمیں پر دے مارا۔ کرونا کے بعد انسان اچھی طرح جان گیا کہ سائنسی ترقی جس قدر بھی ہو ہمارا ہیلتھ نظام جتنا بھی جدید ترین ہو چاہئے ہم کروڑ ہا مرتبہ سُپر پاور بن جائیں بندے تو اسی بے نیاز کے ہیں اور ساری بڑائیاں اسی قدرت کاملہ کے لئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان پہلے دن سے کہہ جا رہے ہیں کہ جن لوگوں کا ایمون سسٹم میٹابولزم مضبوط ہو گا وہ اس بیماری سے دور نکل جائیں گے۔ تو ایمون سسٹم ڈاکٹروں ڈالروں روپے کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ وہ صرف او ر صرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لئیے بہت بڑا جھٹکا ہے کہ افغانستان، بنگلا دیش، سری لنکا جیسے غریب ممالک میں کرونا نے اس طرح تباہ کاریاں نہیں پھیلائیں جس طرح ترقی یافتہ ممالک (امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس) میں پھیلا چکا ہے۔
کیوں نہ ہم اس خدا بے نیاز سے دوستی کر لیں اس کو اپنا حقیقی خدا اور رہبر مان لیں اس سے اپنی پچھلی کوتاہیوں گناہوں اور سیاہ کاریوں کی معافی مانگیں اور وعدہ کر لیں کہ آئندہ کے لئے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ عبادات حقیقی معنوں میں کریں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ڈپریشن ختم ہو جائے گا۔ ایک نئی اُمید کا احساس اور توانائی کا احساس ہو گا۔ خداکی موجودگی کا احساس ہر لمحہ موجود ہو گا۔ جو کبھی بھی انسان کو اکیلا نہیں چھوڑتا لیکن اس کو جو خدا مان لے۔ کیونکہ وہ تو شاہ رگ سے بھی نزدیک رہتا ہے۔ وہ بے نیاز تو ہر سمت ہرجگہ پر موجود و مشہود ہے۔ اور سرکار دو عالم ﷺ تو ہماری جانوں سے بھی قریب ترین ہے۔ بس ہمارے مان لینے میں ہی فرق ہے۔ ہم سے مانا ہی نہیں جاتا، جب ہم نے مان لیا تو دنیا کی کوئی طاقت بھی اس سے بالاتر نہیں ہے۔