ہر کوئی تبدیلی کے چکر میں بھول چکا ہے کہ میں بھی اسی ملک کا باشندہ ہوں اور مجھ پہ بھی باقی عوام کی طرح پوری ذمہ داری ہے۔ یہ ملک صرف وزیر اعظم کا اور ان کی ٹیم کا نہیں ہوتا بلکہ اس خاک سے جڑے ہر فرد پہ ہی وہ ذمہ داری عائد ہے جو حکمرانوں پر ہے۔ فرق ہے تو بس اتنا ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھائے گا اپنی حد تک۔ لیکن ضروی ہے کہ ذمہ داری ہونا۔ ملک پاکستان کی نئی حکومت کا سب سے بڑا ایجنڈا ہے کہ ہم کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں اور غربت کا خاتمہ کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاب نے اپنے پہلے خطاب میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کیئے تھے جو ان کے لوگوں کو بھی نمدیدہ کر گئے جن کے کانوں تک ان کی آواز گئی۔ شاید وہ لمحہ بہت عجیب کہوں تو بھی بجا ہو گا، کی ملکی تاریخ میں یہ پاکستان کا پہلا وزیر اعظم ہو گا جو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا، شائد تبدیلی دیکھنا چاہتا ہے۔ عمران صاب نے کہا تھا کہ'' میں وہ پاکستان کی سرزمین کو اس ریاست میں بدلنا چاہتا ہوں کہ کہ میرے ملک میں زکوۃ لینے والا کوئی شخص نہیں ملے گا" ان کے ایسے الفاظ اور پھر انداز بیان بہت سادہ سا۔۔ دل کو لگنے والا تھا۔ تب تک ملک میں تبدیلی دیکھنے وال ہر آدمی یہ سوچ رہا تھا کہ بہت اچھا ہوا ہے جو عمران صاحب اقتدار میں آئے اس سے پہلے جتنے وزراء بھی آئے سبھی نے سیات تو کی لیکن ریاست کا خیال کسی کو نہیں آیا۔ سبھی نے اپنی کرسی بچائی اور اپنی اپنی جیبیں گرم کرتے رہے۔ لیکن اس نئی حکومت کا پہلا خطاب سن کر دل کو کچھ ہونے لگا۔ یقینناً کچھ نیا ہونے والا تھا لیکن کس کو پتا تھا کہ ایسا نیا ہو گا کہ امیر آدمی کے ساتھ غیریب عوام پہلے اس چکی میں پیس جائے گی۔
یہ بات بلکل بجا ہے کہ حکومت کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا ہے بہت سی امیدیں بر لانی ہیں بہت سے اجڑے گھر آباد کرنے ہیں بے گھروں کو گھر مہیا کرنے ہیں ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دلانا ہے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے۔ بگڑے حالات کو ٹھیک کرنا وغیرہ۔ یہ سب کچھ کرنے کے لئے بہت محنت درکار ہے بہت اچھی حکمت عملی درکار ہے بہت وقت چاہیے ان سب کو ٹھیک کرنے کے لئیے۔ سب سے بڑی ضرورت پیسہ اکھٹا کرنا ہے جس سے یہ سارے کام ہو پائیں۔ ابھی بات یہ ہے کہ حکومت کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ جواب ملے گا ٹیکس وصولی۔ ابھی سوال یہ ہے کہ ٹیکس وصولی تو ضرور ہے لکین کون سے لوگ جو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا غریب آدمی گورنمنٹ کا ٹیکس ادا کر پائے گا؟ نئی حکومت کے ہر قدم پہ معاشرے کے غرباء کے لیے ایک مشکل سوال پیدا کر رہا ہے۔ حکومت کی ٹیکس وصولی غریب عوام کو مہنگی پڑھ رہی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں وزیراعظم صاحب نے اپنے پروٹوکول کی وہ ساری گاڑیاں بیچ دیں جن کا خرچہ فضول خرچ تھا حکومت کو کسارا اور معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا۔ اپوزییشن نے اس بات پہ تنقید کرتے ہوئے اس بات کا مذاق بھی اڑایا لیکن یہ فیصلہ حیران کُن اور قابل فخر بھی ہو گا۔ کیونکہ وہ پیسہ جو ان تمام بڑی بڑی گاڑیاں چلانے میں صرف ہوتا تھا ابھی وہ سرکاری خزانے میں جمع کیا گیا ہے، بے شک وہ ملکی قرض کے مقابلے میں رتی برابر بھی نہ ہو گا لیکن۔ ! یہ فیصلہ مشکل تھا۔ کل تک جو وزراء اور افسران بالا لمبے چوڑے پروٹوکول کے ساتھ چل رہے تھے ابھی ان کے لئے یہ ایک نئی بات ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی عزت، شان بان پہ بھی سوالیہ نشان بن کے کھڑی تھی۔ کہ ہماری اہمیت کم ہو جائے گی یا عوام الناس میں جو رعب اور دبدبہ تھا اس میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اور یقینناً ایسے فیصلے سے یہ سب چیزیں اثر انداز تو ہوتی ہیں اور ساتھ میں غریب آدمی اور مڈل کلاس فیملیز کے ذہن میں خوف ڈر ختم ہو جاتا ہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بھی بجا ہو گا کہ معاشرے میں کسی حد تک مساوات قائم کی جارہی ہوتی ہے۔ شاہی خانے سکولوں اور کالجوں میں تبدیل کرنے کا بھی ایک بڑا فیصلہ۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خزانے میں زیادہ سے زیادہ رقم اکھٹی کرنے کے لالچ اور ضرورت نے حکومت کی آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھی کہ ان کے سارے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ غربت ختم کرنا، تبدیلی لے کر آنا، بے روزگار کو سہولیات اور روزگار دینے کی بجائے ان کے خون پسینے کی کمائی حکومت اپنے خزانے میں جمع کرنا چاہ رہی ہے۔ وہ بھی ٹیکس لگا کر۔ ایک طرف غریب کی ویلفیئر کی جا رہی تھی اور دوسری طرف ٹیکس وصولی کے ذریعے ان کے منہ سے نوالہ چھینا جا رہا ہے۔ کیسا انصاف ہے یہ؟ ایک طرف حکومت کہہ رہی ہوتی ہے کہ ہم نے مہنگی چیزوں پہ ٹیکس لگایا ہے۔ زیادہ تروہ چیزیں جو امیر لوگ خریدتےہیں، میڈیا پہ آ کے یہ اعلان کیا جا رہا ہوتا ہے کہ غریب کی امداد کے لئے کوشاں ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ غریب آدمی پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ ضررویات زندگی غریب اور امیر کی بے شک ایک جیسی نہ ہو گی لیکن کچھ بنیادی ضروریات تو غریب کو بھی چائہیے، اب ان حالات میں وہ غریب آدمی جس کے پانچ چھ بچے ہوتے ہیں اور دن بھر ریڑھی لگا کے بازار میں امیروں کی گاڑیؤں سے بھری ہوئی گرد سے لدی پیشانی لے کر گھر کو لوٹتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ راشن ختم ہو گیا ہے۔ گھرمیں کچھ کھانے کے لیئے میسر نہیں ہے، جب وہ اپنی ٹوٹی ہوئی جوتی اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیدھا کرتے ہوئے بازار کی طرف رخ کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے ہم پہ مہربانی کی ہے اور تمام ترٹیکس بڑھا دئیے ہیں جو ہماری ہی جیب سے ادا ہو رہے ہیں۔ جہاں وہ دو یا تین ہزار میں مہینے کا راشن لیتا تھا ابھی اسے مشکل سے دس دن کا مل رہا ہے اور دوسری طرف اس کے پاس آمدن کا بھی اورکوئی ذریعہ نہیں ہوتا ابھی وہ آدمی جو تھوڑی دیر پہلے دکان سے راشن خرید رہا تھا اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور اس بات کو سوچتا ہے کہ بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا۔ کیسی تبدیلی آگئی ہے جس نے ہماری اولاد کے حصے میں آنے والے روٹی کے چند ٹکڑے بھی ٹیکس کی صورت میں وصول کر لئیے جن سے پیٹ بھر کر ہم زندہ رہے سکتے تھے۔ ابھی وہ بوڑھا باپ اپنی اولاد کوکس طرح سمجھا پائے گا۔ یہاں حکومت کی اپنی من مانی تو چل رہی ہے خزانے میں اچھے بھلے پیسے آرہے ہیں لیکن امیر آدمی کی جیب سے نہیں غریب کی جیب سے۔ غریب کی ضروت تیل صابن اور گھی تک ہوتی ہے جسے سب کچھ ٹیکس دے کر ملتا ہے اور امیر لوگ پندرہ گاڑیاں بھی چلائیں تو ان کا ٹیکس نہیں دیتے۔ بڑے بڑے گھروں میں رہیں لیکن ٹیکس کوئی نہیں۔ بہت افسوس ہے حکومت کے اس فیصلے پر کہ جو باپ اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لئے بندے بندےسے قرض ادھار مانگتا پھرتا ہے حکومت کو اس غریب بوڑھے اور لاچار باپ سے بھی بیس ہزار روپے چاہیے۔ اور ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس کے غریب باپ کو اچھا لگتا ہو گا اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لئے بھی اسے گورنمنٹ کو ٹیکس ادا کرنا پڑھے۔ انتہائی معافی کے ساتھ حکومت ٹیکس ضرور وصول کرے لیکن غریب آدمی کا خون نہیں۔ ملکی قرضے اتارے لیکن غریب کے نوالے سے نہیں، ملک کو ایک عالمی سطح پر لے کر آئے لیکن بہتر حکمت عملی سے۔