1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آصف علی/
  4. آج کا الیکشن اور ضمیر کی آواز

آج کا الیکشن اور ضمیر کی آواز

تا حال ہر کوئی الیکشن کی بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ایک سے دوسرا آدمی اس کوشش میں لگا ہے کہ اس کی پارٹی جیت کا اعزازحاصل کر لے اور معاشرے میں اس کی عزت و بھرم قائم رہ جائے لیکن۔ ۔؟؟

آج بھی میرے دماغ میں ایک سوال جو بار ہا مجھے ستائے جا رہا ہے کہ ایسا کیوں۔ ؟

وہ بھی مسلماں تو ہیں لیکن کیسے مسلماں۔ ؟

بے شک وہ کلمہ گو ہیں لیکن کس حد تک۔ َ؟

میں اور آپ سب اس بھاگ دوڑ میں شامل تو ہیں لیکن کس کو یہ خبر ہے کون کس کے لیے محنت کر رہا ہے کس کے لئے بھاگ رہا ہے۔ آخر کار اتنی تگ و دو کس کے لئیے۔ آخر کون ہے ہمارا (آپ کا اور میرا) لیڈر۔ ؟

یہاں ہر جملے پر ایک سوالیہ نشان مجھے بہت پریشان کر رہا ہے، کیونکہ ہم سب خود کو تو ایک سچا مسلمان کہلاتے ہیں اورآخر زماں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور الحمد اللہ ہم میں سے 99.90 فیصد لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

حضور نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مقدسہ ہمارے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ آپﷺ نے بظاہر دنیا میں قدم مبارک رکھا تو سب سے پہلے اپنی امت کے لئیے دعا فرمائی۔ اے اللہ میری امت کو بخش دے۔ غاروں میں جا کر اپنی امت کے لئیے دعائیں فرماتے رہے۔ قرن شہر کے رہائشی عاشق مصطفٰی ﷺ حضرت اویس قرنی جیسے عظیم الشان صحابہ سے بھی اپنی امت کی بخشش کے لئے دعا کروائی۔ آخر کیوں؟

اگرچہ ایسا شفیق اور مہربان نبی ہم جیسے گنہگاروں کو نہ ملتا تو آپ اور میں اللہ رب العزت سے کیا شکوہ کر سکتے تھے؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ ہم سے پہلی امتوں میں جتنے انبیاء و رسل تشریف لائے سبھی امتوں پر عذاب بھی آتے رہے ہیں۔ کسی کے چہرے بدلتے رہے۔ کسی پر طوفان آتا رہا۔ کسی کی شکلیں بھی بدل گئیں۔ لیکن الحمد اللہ ہم لوگ محفوظ ہیں کس کے واسطے؟

پہلیاں اُمتاں کردیاں سَن گنہاہ جس دم بگڑ جاندا سی ہر اک بدکار دا مونہہ

بندہ بندہ گناہواں دے وچ ڈُبیا ہُن کیوں وگڑدا نہیں سیاہ کار دا مونہہ

گندی مندی جگہ توں نئیں مڑدا جگہ جگہ رہندا اے ماردا مونہہ

ہُن وی حافظہ غرق جہاں ہوندا پر یار نوں ماردا اے یار دا مونہہ

حضراتِ گرامی یہاں میرا کوئی لمبا چوڑا وعظ کرنے کا ارادہ نہیں ہے لیکن میں صرف آپ کے ایمان کو جنھنھوڑنا چاہتا ہوں۔ آپ اپنی سوچ سے ہٹ کر اپنے ایمان پر فوکس کریں اور سوچیں کہ آپ اور میں اگر اس قدر خوش قسمت ہیں تو کس بنا پر۔ کیا ایسی کوئی خوبی آپ میں یا مجھ میں ہے۔ ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ ہم تو انتہائی گنہگار ہیں اور کتنی نیکیاں کیں ہم نے اس کا اندازہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ کیونکہ ہم اس قدر گنہاگار ہیں کے ایک آدھ نیکی کس شمار میں آ سکتی ہے۔ ؟

کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ دن بھر میں ہم کتنے نیک کام کرتے ہیں اور گناہ کتنے کرتے ہیں۔ ؟

یقینناً میں اور آپ اگر اس کا حساب کرنے لگ جائیں تو ہمارے پیروں تلے زمین نکل جائے گی جس قدر ہم گنہگار ہیں۔

اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب سوچنے والی اور قابل توجہ یہ نقطہ ہے کہ ہم اتنے بدکار اور سیاہ کار ہونے کے باوجود اگر خدا کی تمام نعمتیں حاصل کررہےہیں تو کس کی بدولت۔ ؟

اگر صحت یاب اور تندرست ہیں تو کس کی بدولت؟

ہم کو باقی امتوں پر فوقیت عطا ہوئی تو کس کی بدولت؟

سارے عیوب و نقائص ہونے کے باوجود آپ اور میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہیں ہیں تو کس کی بدولت؟

محترم یہ سب کرم نوازی ہمارے پیارے نبی آخرزماں جناب حضرت محمد مصطٖفٰیﷺ کی ذات مقدس کی بدولت ہے۔ تو ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم ان کی ذاتِ کریم کے لیئے کیا کر رہے ہیں۔ ہمارے روز مرہ کے کام صرف ہماری اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں۔ ہماری ہر عبادت میں بھی ہم ایک لالچ لئے ہوتے ہیں۔ ؟ آخر ایسا کیوں؟

کوئی دنیادار بننا چاہتا ہے۔ عوام الناس میں اس کو مشہوری چاہیئے، کوئی جنت کی تلاش میں ہے، کوئی کسی کا دل دکھانے کی خاطر نیک کام اور برے کام کر رہا ہوتا ہے، المختصر ہمارا کوئی بھی کام ہم محض اس ذاتِ باربرکات کے لئے نہیں کر رہے ہوتے جس کے صدقے ہمیں یہ سب نصیب ہوا، جس کے طفیل آپ کو اور مجھ کو دین و دنیا کی زیب و آرائش دیکھنی اور پانی نصیب ہوئی۔

کیاہم پر سرکارِ دوعالم کا کوئی حق نہیں ہے۔ ؟

کیا ہم پر اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا جائز نہیں ہے؟

یقینناً میرے یہ جملے آپ کو کڑوے لگ رہے ہوں گے کیونکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگر ہم پر حق ہے تو کیا ہم حق ادا کر رہے ہیں؟

یہ جان دی ہوئی بھی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

PLEASE THINK ABOUT IT, AS SOON AS IT IS POSSIBLE۔

ابھی بھی وقت ہے کچھ کر دکھانے کا، محنت کرنے کا، کوشش کرنے کا، خود کو ثابت کرنے کا، آ جائیں میدان میں اور یہ بات ثابت کریں کہ ہم واقعی ہی سچے مسلمان ہیں۔

جاگ اُٹھے اہلسنت گونج اُٹھا یہ نعرہ ہے

دور ہٹو اے دشمنِ ملت پاکستان ہمارا ہے

آج ریس کی اس دنیا میں ہر کوئی بھاگ رہا ہے کوئی اپنے خود کی شان و شوکت کے لئے بھاگے جا رہا ہے۔ کوئی اپنے رشتہ دار عزیزواقارب کے لیے بھاگ رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ہمیں ووٹ دیں ہم آپ کو یہ آسانی مہیہا کریں گے کہیں پہ گیس لگ رہی ہوتی ہے یا نالی سولنگ کا کام ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی کو نوکری مل رہی ہوتی ہے، تو کوئی خادم اعلی بننےجا رہا ہوتا ہے۔ اس بھاگ دوڑ میں لگے ہیں سب۔ آپ اپنے رشتہ داروں عزیزوں کے پاس جائیں گے یار فلاں ایم پی اے میرا دوست ہے اس کو ووٹ دے کر کامیاب کریں کیونکہ اس میں آپ کی بھی عزت رہ جائے گی۔ میں کسی کے پاس جاوں گا کہ فلاں ایم پی اے میرا عزیز ہے اس کو ووٹ دے کر کامیاب کریں تو میری بھی بلے بلے ہو جائے گی۔ کیا ہم اس بھاگ دوڑ میں یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر تو ہم مسلمان ہیں تو ہمارہے لیڈر راہنما کس قدر مسلم سوسائٹی میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ لیڈر دین محمدیﷺ کا تحفظ کر رہے ہین یا نہیں۔ کیا ان ہی کوئی ایسا تو نہیں جو سرکارﷺ کی ختمِ نبوت پر حملہ کر رہا ہو یا کوئی ایسا جو حملہ آورں کی مدد کرنے پہ تلہ ہو۔ ؟ ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے۔

کیا آپ لوگ بھول رہے ہیں آقا حسینؑ کی قربانی؟

کیا آپ لوگ بھول رہے ہیں غازی علم دینؒ کی قربانی؟

کیا آپ لوگ بھول رہے ہیں غازی ممتاز حسینؒ کی قربانی؟

وہ عاشقانِ مصطفیٰﷺ جو سرکار کی ناموس پر اپنی جانیں قربان کرتے چلے گئے اور ہمارے لئے ایک باب قلمبند کیا کہ قیامت کی صبح تک روشن و سرشار چمکتا رہے گا۔ جس کو ہر ایک مسلم جس میں تھوڑا بھی ایمان ہے تو اس بات پہ ضرور فخر محسوس کرے گا کہ ہم سچے اور سُچے عاشق رسولﷺ ہیں۔

تو کیا ہم لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ آپ اور میں حق پر ہیں یا وہ لیڈر جن کو ہم سپورٹ کر رہے ہیں وہ دین مصطفٰیﷺ کے محافظ ہیں۔ ۔ اگر تو آپ کا ایمان اپ کو تھوڑا بھی ملامت کرتا ہے تو پھر کیوں ان کی سپورٹ کی جا رہی ہے۔ کیوں جھوٹ کو سر عام سہارا دیا جا رہا ہے۔

ہمارے وہ لیڈر جو ختم نبوتﷺ میں ترمیم بھی کرتے ہیں تو ہم ان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ لیڈرجہنوں نے گزرے ہوئے کل میں غازی ممتاز قادریؒ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جس نے سرکار کی ناموس کی خاطر اپنی جان حوالے کی کیا وہ لیڈر ٹھیک کر رہے تھے۔ یاابھی جو سر عام کسی کی بہن کسی کی ماں اور کسی کی بیٹی ہوتی ہے جو سر پہ ڈوپٹے رکھنے کی بجائے اپنا سطر ڈھاپنا بھی بھول چکی ہوتی ہیں کہ ہم تو سیاسی جلسے میں شریک ہونے جا رہی ہیں۔ ہمارے وہ لیڈر جن کو پورے کلمے نہیں آتے۔ پاک سرزمین پہ حکومت کے طالب تو ہیں لیکن کیا ہمارے راہبر و راہنما حقیقت میں پاک ہیں۔ کرپشن سے، دھوکہ دہی سے، جھوٹ و فریب سے، جو ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں لایا گیا، کیا اس ملک کے حکمران اسلام سے واقف ہیں یا صرف نام کے مسلمان ہیں۔ یہاں پہ ہر کوئی اپنا کام چلانے کے لیے ایک وعدہ کر رہا ہے، کہیں پاکستان کا نقشہ بدلہ جا رہا ہے اور کہیں پر نیا پاکستان بنایا جا رہا ہے۔

کیا نیا پاکستان ایسا ہی ہونا چائیے۔ ؟ جس میں ماں کو ماں کا درجہ نہ ملے قوم کی بیٹی سرعام بازاروں میں پھر رہی ہو، کیا آپ ایسا پاکستان ہی پسند کریں گے۔ اگر ایسا ہی کرنے کا ارادہ ہے تو ضرور اپنے ملک کا نام ہی تبدیل کر لیا جائے کیونکہ پاکستان سے مطلب پاک سر زمین ہے۔ اور اگر ہمارا انتخاب ایسے لیڈر ہوں گے جوپاکستان میں کیا پاک رہے گا۔ ؟

آج بھی وقت ہے جاگو مسلمانوں اور بجائے اس کے آپ اپنے دماغ سے فیصلہ کریں دل سے اور ایمان سے فیصلہ کریں کہ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے آپ کو کیا کرنا چاہئے،۔ آپ کا انتخاب کیسا ہونا چائیے۔

اگر آپ اور میں اسلامی ملک کے باشندے ہیں تو پھر لازم ہے نہ کہ ملک میں قانون بھی اسلامی ہو، ہمارے رہبر ولیڈر بھی دین اسلام کے پیروکار ہوں، حضورﷺ کی ختم نبوت پہ یقین رکھنے والے ہوں۔ سرکار کی ناموس پہ پہرا دینے والے ہوں، اگر کوئی آنکھ اٹھائے تو کیوں نہ اس کی آنکھ ہی نکال لی جائے۔

آپ کا ووٹ اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ آپ کے حق میں وہ لیڈر ہر لحاظ سے اہل ہے اور اس قابل ہے کہ نظام مصطفیٰﷺ چلا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ہر مسلمان اس بات سے واقف ہے کہ آپ کی گواہی کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں تو ہم لوگ بدکار لیڈر کا انتخاب کرنے پر ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ہماری گواہی ہمارے سامنے لائی جائے گی۔ ان کے گناہ اور ان کی ہر وہ گھٹیا حرکت جو دین اسلام کے خلاف ہے ہم اس میں برابر کے شریک ہوں گے۔ کیونکہ ہم اس کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے کہ ہماری گواہی بھی غلط ہو گی۔ تو ہم اس کے ہر اچھے برے میں شریک ہوں گے۔

عام سی مثال ہے کہ کہاجاتا ہے کہ "چور کی مدد کرنے والا بھی برابر کا ہی گنہگار ہوتا ہے"

تو ہم لوگ کیونکر گنہگارہو رہے ہیں۔ چوری کوئی کر رہا ہے اور آپ بھی ساتھ میں برابر کے شریک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کیوں؟

اچھا لیڈر کون ہوتا ہے۔ ؟

لیڈر ایک اچھا رہبر راہنما ہوتا ہے۔ اگر یہ ہی سچ ہے تو آپ نے کبھی اس بات پہ غور کیا کہ جس لیڈر کا آپ انتخاب کر رہے ہیں وہ کس حد تک آپ کا راہنما ہو سکتا ہے اور کس معاملے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ کیا وہ واقعی ہی میں سچا اور اچھا لیڈر ہے۔ ہم زندگی کے ہر موڑ پر اپنے رہبر و راہنما سے کچھ سیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آپ لوگوں نے ہمارے لیڈر صاحبان(میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، پرویز مشرف، عمران خان وغیرہ) جوہماری نظر میں ملک کے محاظ ہیں ان سے ہم نے کیا سیکھا ہے۔ چوری کرنا، رشوت لینا، کرپشن کرنا، دھوکہ دہی کرنا، جھوٹ بولنا، یا پھر اپنے فائدے کے لیے دوسروں پہ کیچڑ اچھالنا۔ ۔ ۔ ؟ یہاں تک کہ ہمارے لیڈر صاحبان اپنے فائدے کی خآطر حضورﷺ کی ناموس کی پرواہ کیے بغیر اپنی کرسی تو بچا رہے ہیں لیکن اپنا ایمان اور آخرت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ تو کیا ہم ان سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر سیکھنا ہے تو یہ کچھ ہی سکیھنے کو ملے گاہمیں بھی کہ کل کو ہم بھی ہر بات پہ جھوٹ کا سہارا لیں دھوکہ دیں دوسروں پہ کیچڑ اچھالیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سب سے بڑے لیڈر آپ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰیﷺ کی ذات مقدس ہمارے لیئے عملی نمونہ پیش کیا۔ ان کی زندگی مبارکہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ ان کے صحابہ اکرام اہل بیت اطہار اور تمام اولیا اللہ ہمارے لیےجیتی جاگتی مثال ہے۔ ہمیں ان کی حیات مبارکہ سے کافی کچھ سیکنھنے کو تو ملتا ہے لیکن آج کے وقت حاضرہ میں لیڈر ہمیں کیا سکھا رہے ہیں۔

بقول تاجدار مدینہٓﷺ علماء کرام نبوت و دین کے وارث ہیں۔ تو کیا ہم دیندار لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں یا کہ بس دنیا داروں کو۔

آج ہر کوئی اس بات سامنے تو لاتا ہے کہ یا باری تعالیٰ کوئی اچھا حکمران بھیج ہمارے بیچ، کاش کہ حضرت عمرکا دور پھر سے واپس آ جائے۔ لیکن کیسے۔ ؟ یقینناً آپ لوگ سرکار دوعالمﷺ کی اس حدیث سے تو واقف ہوں کے کہ جیسی عوام ویسا حکمران۔ اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلی جا سکتی جب تک وہ خود نہ چاہیں۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے سالوں پہلے اس بات سے ہمیں آگاہ کہ قوم کا ہر فرد ایک گاڑی میں بیٹھے اس ڈرائیور کی طرح ہے جس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ جس سمت میں چلنا چاہے چل سکتا ہے۔ اگر ہم قوم کی حالت بدلیں گے تو بھی ہم خود اس کو جس سمت میں لے جانا چاہیں تو بھی معاشرے میں رہائش پذیر تمامی اشخاص اس بات کا ذمہ دار ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔

آو ایک عہد کرتے ہیں کہ آج سے آپ کا اور میرا ہر ایک عمل محظ اس ذات کریم کی خاطر ہو گا۔ اور ہماری گواہی(ووٹ) بھی رسول کریمﷺ کی ناموس کے لئے ہی ہو گا۔ انشاء اللہ ہمارا ہر ایک عمل نہ کے دکھاوئے کے لیئے بلکہ اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر ہو گا۔

تو دیکھتے ہیں کون ہو گا آپ کا لیڈر۔ ؟

کس کا انتخاب کرتا ہے آپ کا عقیدہ ایمان۔ ؟محب روسولﷺ کا یا دشمن اسلام کا۔ ؟

آپ اسلام کو تخت پہ لانا پسند فرمائیں گے یا کہ دشمن اسلام کو۔ ؟

یاد رکھیں ان لیڈر کے وہ اعمال بھی ذہن نشین رکھیں جو الیکشن شروع ہونے سے پہلے کرتے ہیں اور وہ بھی دیکھ لیں جو یہ پہلے کر چکے ہیں۔ اور ابھی کیا کر رہے ہیں۔ ؟

دین اسلام آپکو انتخاب کرنے کا مکمل حق تو دیتا ہے لیکن وہ آپ کی گواہی پہ منحصر ہے۔

آپ کیا کرتے ہیں۔ ؟

کیوں کرتے ہیں۔ ؟َ

کس لیئے کرتے ہیں۔ ؟

کس کے لئیے کرتے ہیں۔ ؟

یہ سب نقاط ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے لیڈر کا انتخاب کریں۔