دن ڈھلتے گئے وقت گزرتا گیا سکول کی چار دیواری سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کیمپس میں آنا جانا لگ گیا، تعلیم کا معیار بڑھتا چلا گیا آخر کار ایک دن ایسا بھی آیا کہ تعلیم مکمل تو نہ ہو سکی لیکن یہاں تک ضرور کہ اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی ہمت اور صحیح غلط کی سوج بھوجھ سے واقفیت ہو نے لگی۔ زندگی کے ہر آنے والے نئے دن میں ہر نئی صبح کے ساتھ کچھ نئے کام کا آغاز کرنا میرا شوق ہے اور ایسی شخصیات جو مختلف قسم کے ہنر و فن کے ماہر تھے ان سے دل لگی کرنا میری خود کی کامیابی ہے۔ کیونکہ ہر ایک سیکنڈ میں ہم کچھ نیا سکیھ رہے تھے کچھ کر جانے کی خواہش پیدا ہو رہی تھی۔ میری زندگی کے 28 سال اسی تگ و دو میں گزرتے چلے جا رہے تھے، ایک دن اچانک میرے من میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ ایسا کچھ کیا جائے جس کے تحت میں کچھ کرنے کے قابل بن سکوں، اور اس کام کو اپنی روزمرہ زندگی میں عملی طور پر پایہ تکمیل تک لے جاوں۔ مجھے زندگی کے اس مرحلے میں سیکھنے کے لئے تو کافی کچھ ملا ایسی چیزوں سے وابستگی ہونے لگی جو کبھی خیال تک نہ تھا، لیکن ہر نئی چیز قابل تعریف اور قابل فخرتھی۔ کیونکہ اس دوران نہایت اعلیٰ شخصیت کے حامل افراد اور افسرانِ بالا سے ملنے کی موقع مل رہا تھا۔ یہ ادارہ ایک ایسا ادارہ ہے جو بہت سے لوگوں کی نظر میں ایک الگ قسم کا تاثر رکھتا ہے لیکن ایسا ہر گزنہیں ہے۔ کیونکہ جو خدمات اس ادارے سے ہم کو حاصل ہوئیں شاید ہی کوئی ایسی کوشش کرے۔ اس ادارے کو عوام الناس پولیس کے نام سے جانتے ہیں۔ اور ہمارا اتفاق پنجاب پولیس کے ادارے کی وہ برانچ جو ٹریفک کے مسائل میں درپیش عوام کی خدمت میں کوشاں و حاضر ہیں ان کے نہایت قابل افسران ودیگر سٹاف سے سیکھنے کا موقع فراہم ہوا۔ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کی انتھک محنت و کاوش کی وجہ سے ضلع حافظ آباد میں سٹی ٹریفک پولیس کی طرف سے ڈرائیونگ ٹرینگ سکول قائم کیا گیا جو ضلع بھرمیں اپنے قابل افسران و انسٹرکٹر کی انتھک محنتوں سے ملک بھر میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔
یوں تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن میں اپنے مرکزی نقطہ کیطرف آنا چاہتا ہوں کہ میری زندگی کے 28 سال میں کم و بیش ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی استاد ملتا رہا ہے۔ ہر آئے دن کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ لیکن مختلف اساتذہ پروفیسر اور ڈاکڑز کا علم اوراخلاق سب بجا تھا لیکن یہاں مجھے ایک چیز نے اس بات کو ترازو میں لانے کو مجبور کیا جو کے اس ادارے اور اس کی خدمات کی وجہ سے ہے۔ ان تمام احباب میں میری مراد، میرے محسن و عزیز، انتہائی قابل شخصیت میرے مخلص استاد محترم جناب محمد ارشد صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جو نہ صرف ہماری کلاس کے استاد بلکہ ہمارے لئیے ایک مثالی شخصیت بھی ثابت ہوئے۔ یقیناً یہ میرا نظریہ ہی نہیں بلکہ پوری کلاس کے طلباء و طالبات اس بات پر سر تسلیم خم کرتے ہیں جب ان کا نام نامی ہمارے کانوں میں رس گھولتا ہے۔
کلاس کے آغاز میں کچھ یوں تھا کہ پولیس کا ادارہ ہے اور پتہ نہیں کیسا رویہ رکھا جائے گا ان کی تربیت کرنے کا انداز کیسا ہو گا لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، کلاس کا وقت ختم ہونے سے بعد بھی کلاس جاری رکھنے کا دل چاہتا تھا، اور ہر آئے دن گھر آنے پر اساتذہ سے دوری کا احساس بڑھنے لگا۔ اگر اس کی وجہ بیان کی جائے تو ہر کوئی اپنے انداز میں اپنے الفاظ میں بیان کرے گا، یقیناً میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں جو اپنے استاد محترم، باپ جیسی عظیم ہستی کے متعلق بیان کر سکوں، ان کی گفتگو کا انداز، ان کے چلنے بولنے اٹھنے بیٹھنے کا انداز ایک الگ سا تھا، ان کےہر لفظ میں ایس تاثیر کے کانوں میں رس گھولتی چلی جا رہی تھی، اگر میں اس بات کا موازنہ کرنے لگ جاوں کے میری ساری سٹوڈنٹ لائف میں اگر مجھے کچھ اچھا لگا ہے تو یا پسندیدہ استاد محترم کی شخصیت کا بیان کرنا ہو تو وہ یقیناً میرے محترم واجب الاحترام جناب محمد ارشد صاحب کی شخصیت ہو گی۔ میں سلام پیش کرتا ہوں ان ماوں کو جنہوں نے ایسے سپوت جنم دئیے، ایسے فرندانِ وطن جن پہ ملک و قوم کر فخر ہوتا ہے، جن کی وجہ سے نہ صرف ایک ادارے کا سربلند ہوتا ہے بلکہ ملک و ملت کو اس پہ ناز ہوتا ہے۔ آج بھی اس بات کا موازنہ کیا جا ئے تو ساری سٹوڈنٹ لائف سے بہترین گزارے جانے والے یہ مخصوص دن جو حافظ آباد پولیس لائین میں اس شفیق و محترم شخصیت کے ساتھ گزرے جن کا نام سن کر ادب سے اُٹھ کھڑے ہونے کو دل چاہتا ہے۔ ان کی ہر بات پہ لبیک کہنے کو دل چاہتا ہے۔ وہ اپنی مثال خود ہیں۔
دیکھا جائے تو ان کا عہدہ ان کے شخصیت و اخلاق کے مطابق نہ تھا لیکن بڑے بڑے عہدے داران کو جھک کر سلام کرتے دیکھ چکا تھا، میں یہ نہیں جانتا تھا کہ ان صاحبان کا کوئی خونی رشتہ ہے جس کی وجہ سے وہ احترامہً کھڑے ہو رہے ہیں یقینا ان سے اخلاق و محبت کا وہ گہرا رشتہ ہے جس کی بدولت انسان دنیا کے تمام اعلیٰ درجے کے عہدہ داران سے بھی عزت و تکریم حاصل کر سکتا ہے جو جناب کو مل رہا تھا۔ مجھے اتفاقاان کے ساتھ ان کے افسرانِ بالا کے ہاں جانے کا موقع میسر ہوا جس دوران میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ ہر عہدہ دار کی نظر میں جناب کے لیے حیاو شرم عزت و تکریم اور پیار اور محبت تھا، جس کا اظہار ہر ایک شخصیت نے اپنے انداز سے کیا، کسی نے اپنی کرسی سے اُٹھ کر اپنا فرض ادا کیا تو کسی نے کھانا کھلانے اور خاطر تواضع سے اپنا فرض ادا کیا اور یہ اس بات کی گواہی تھی کی ان کی محبت اور ان کا اخلاق ہی ہے جس کی بدولت جناب کو یہ پروٹوکول دیا جا رہا ہے حالانکہ عہدے اور گریڈ کے لحاظ سے اعلیٰ شخصیات تھیں، لیکن ان کے دل میں محبت اس بات کا ثبوت تھی اس جناب کے اخلاق اور محبت سے متاثر ہیں۔ اسی دوران جب ہم واپس آرہے تھے تو جناب نے ناچیز سے ایک سوال پوچھا کہ یہ سب لوگ مجھ سے عہدے میں اور کچھ لوگ عہدے میں بھی بڑے رینک پر فائز ہونے کے باوجود میری اتنی عزت کیوں کرتے ہیں۔ اس بات کا جواب تو میں نہ دے سکا لیکن ان کے اس سوال کرنے سے میرے لیئے ایک خاص پیغام تھا جو جناب نے ناچیز کو حکم صادر فرمایا، کہ انسان کی محبت اور اس کا اخلاق ایک ایسی چیز ہے جوایک عام انسان کو زمین سے اٹھا کر تخت پر بٹھا دیتی ہے اور اسی کی اخلاق اس کو تخت سے زمین پر بھی لا کھڑا کرتا ہے۔
یقینناایسی متاثر کن شخصیات جس ادارے، اور جس گھر میں موجود ہو اس کو ترقی و کامرانی سے کوئی نہیں روک سکتا، کیونکہ ان کی محنت و کاوش ہی اس قدر ہوتی ہے کہ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ ہر استاد قابل احترام اور قابل تعریف ہوتا ہے لیکن ہرطالب علم استاد کی محبت و پیار حاصل نہیں کرسکتا جس کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ایک اچھا شاگرد نہیں بن سکتا یا استاد کے پاس ایسی سکلز نہیں ہوتی جس کے تحت وہ شاگرد کو متاثر کر سکے۔ جیسا بھی ہو استاد کا مقام انتہائی اعلیٰ درجے کا ہے۔ اس کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے، اگر تو آپ ایک قابل شاگرد ہیں تو یقینناً جناب کے استاد بھی نہایت قابل شخصیت ہیں اور اگر آپ اچھے شاگرد ثابت نہیں ہو پائے تو استاد ہر گز اس بات کا ضامن نہیں کہ آپ اچھے ہوں، اور اگر استاد محترم کی شخصیت میں اس قدر نکھار پایا جاتا ہے یا ان کا انداز گفتگو اایسا میٹھا ہے ان کی زبان میں اس قدر شِیریں ہے تو شاگرد جیسا بھی ہو استاد اس کو اس سانچے میں ڈھال ہی دیتا ہے جو دنیا کے لئے ایک مثال بن کر سامنے آتا ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں ہے کہ "علم حاصل کرو گود سے لیکر گور تک"، بے شک ہمارا ہر دن ہر پل ہر لمحہ سیکھنے کے مرحلے میں سے گزر رہا ہے۔ کوئی بھی انسان ماسوائے حضور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے علاوہ مکمل نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ ہر شاگرد استاد سے سیکھتا ہے اور یقیناً ہر استاد بھی شاگر سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے۔