بہت دن بعد آج دوبارہ لکھنے کا موقع ملا۔ آج کل جی نیوز سے منسلک ہوں اور بزنس آور کے نام سے ہفتہ وار پروگرام کر رہا ہوں۔ آج لکھنے کا مقصد امتیاز فاران صاحب کے ساتھ پیش ہونے والا واقعہ ہے جس کی ویڈیو اس وقت ہر واٹس ایپ گروپ کی زینت بن گئی ہے اور تمام صحافی اس کی مذمت بھی کر رہے ہیں کرنی بھی چاہیے میری براہ راست تو امتیاز بھائی سے بات چیت نہیں ہے، مگر کافی ملاقاتیں رہی ہیں۔ ورنہ میں خود ان سے بات کرکے اس واقعے کی مذمت کرتا امتیاز بھائی آج کل کراچی پریس کلب صدر بھی ہے۔
اب دیکھتے ہیں صحافی بھائی کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں کچھ دن قبل بھی بول ٹی وی کے سمیع ابراہم صاحب کو فواد چوہدری نے تھپڑ مارا اور اب پی ٹی آئی کے کراچی کے نمائندے نے امتیاز بھائی کے ساتھ یہ واقعہ کر ڈالا اب سب عدم برداشت کی بات کریں گے اور یہ حقیقت ہے کہ اب ہمارے معاشرے سے برداشت ختم ہو چکا ہے یہ آج سے نہیں پچھلے کئی سالوں کی بات ہے، اور صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات کی لمبی فہرست بھی موجود ہے کبھی پولیس والے مار پیٹ کرتے کچھ دن پہلے ہی میں نے پڑھا تھا سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران صحافی بھائیوں نےدوران اجلاس پر یس گیلری میں احتجاج شروع کر دیا تھا اور اس کی وجہ تھی اندورن سندھ پولیس والوں کی جانب سے صحافی بھائیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا اندراج۔۔ آج کل صحافی بھی گری ہوئی گائے کی طرح ہے جس پر سب چڑھنا چاہتے ہیں کبھی سیاسی کارکن اور کبھی وکلاء۔۔ وکلاء بھائیوں کی نظر تو میں بھی چڑھ چکا ہوں وہ بھی سندھ ہائی کورٹ میں۔۔
اب بات یہ کہ اس طرح کی حرکات پڑھے لکھے لوگ کو زیب نہیں دیتی مگر جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہیں کیا ان اداروں اور شعبوں میں جاہل آدمی تو نہیں جا سکتا بات اس وقت اس چیز کو سمجھنے کی ہیں کہ ٹی وی چینل پر بیٹھا اینکر اور ان کے پروگرام میں شرک دیگر مہمان ایسا کیا کر دیتے ہیں یا اتنی تذلیل کر دیتے ہیں کہ وہ ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔
مگر پھر بھی غلط ہے آپ بات کا جواب ہاتھ اٹھا کر نہیں دے سکتے، مگر کیا کریں اس وقت لوگ پریشان ہے مہنگائی کا طوفان ہے معاشی بحران سے پی ٹی آئی حکومت نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہی مگر عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکل گئی ہیں روپے کی قدر میں مسلسل بے قدر ی جاری ہے پیٹرول، بجلی، گیس کی قیمتیں آپ کے سامنے ہیں اوپر سے آج کل موسم کی سختی بھی پہلے سے کچھ زیادہ ہے یا حالات سے وہ بھی ذیادہ محسوس ہو رہی ہیں ان تمام چیزوں کا اثر اس طرح کے واقعات کو جنم دے رہا اور صحافی بیرونی خطرات سے نپٹ رہا ہے مگر اندرونی حالات بھی سازگار نہیں اب گنتی کے کوئی چینل اور اخبار ہو گے جو وقت پر سیلری دے رہے ہوں گے اور حالات دن با دن سنگین ہو ہوتے جارہے ہیں۔۔
صحافی کی تذلیل اب روز کا معمول ہیں کبھی ادارے کے آیچ آر کبھی ادارے کے ڈائریکٹر نیوز اور کنٹرولر نیوز کے ہاتھوں گھر جاتا ہےتو بچوں کے اسکول کی فیس چالان کے ہاتھوں۔۔ مالک مکان کے ہاتھوں اور آخری میں راشن کی دوکاندار کے ہاتھوں پتہ نہیں کب یہ سلسلہ روکے گا اور صحافی بھی ذہنی سکون سے کام کر سکے گا۔۔