1. ہوم
  2. کالمز
  3. محسن خالد محسنؔ
  4. بیٹا، پیسے نہیں مانگتے

بیٹا، پیسے نہیں مانگتے

چار بجے کاوقت تھا، گھر سے پانچ بجے نکلا۔ ہوم ٹیویشن جانا تھا، سوچا، کال کرکے چھٹی کا کہ دیتا ہوں۔ خیال آیا، قریب ہی گھر ہے، چلا جاتا ہوں۔ فنکشن آٹھ نو بجے تک چلے گا، چھے بجے تک ہال میں پہنچ جاؤں گا۔ ہوم ٹیوشن والے بچے کو جلدی جلدی پڑھا کر ہال کی طرف بائیک دوڑائی۔

چھے بجے کے قریب میں ہال میں داخل ہوا تو ایک ہنگامہ برپا تھا۔ بچیوں نے داد، دینے کی غرض سے ہال سر پر اُٹھایا ہوا تھا۔ میں چپکے سے ہال کے ایک کونے میں خالی کُرسی دیکھ کر بیٹھ گیا۔ اسٹیج سیکرٹری نے مجھے دیکھ کر میری آمد کا ذکر کیا تو ہال میں تالیوں کی گونج سنائی دی، مجھے اسٹیج پر مدعو کیا گیا اور تعریفی کلمات کہ کر دوبارہ نشست پر بیٹھے کی درخواست کی گئی۔

نشست سنبھال کر اُڑتی سی نگاہ چاروں طرف دوڑائی۔ سب اچھا اچھا محسوس کرکے اطمینان سے پاؤں پسار کر بیٹھ گیا۔ نیا تھری پیس گفٹ میں ملا تھا، الماری سے نکال کر عجلت میں پہن آیا۔ ہال کے قدِ آدم آئینے میں اپنے سراپا، پر نگاہ پڑی تو بے اختیار مسکرا دیا کہ پینٹ کے پائنچے تو بنوائے ہی نہیں۔

چپکے سے اُٹھا، حاجت کے بہانے واش روم جا کر پینٹ کے پائنچوں کو کسی طرح ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ کھلے پائنچوں کو پینٹ کے اندرونی حصے میں اُڑسنے کی کوشش کی، جب چلنے لگا تو اُڑسا ہوا کپڑا سِرک کر پاؤں کے گرد پھیل گیا۔ کیا مصیبت ہے یار، اب کیا کروں۔ تم بے وقوف دیکھ تو لیتے کہ پائنچے ٹھیک کروانے والے ہیں، خوشی کے گھوڑے پر بیٹھنے کا شوق ایسا چڑھا تھا کہ ان کا خیال ذہن سے محو ہوگیا۔

جیسے تیسے جگاڑ کر پائنچوں کو جزوقتی پینٹ کی اندرونی سطح پر گرہ کی صورت باندھ دیا۔ واپس کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ فنکشن کے مختلف سیگمنٹ ہوتے رہے اور باری باری ہمیں اسٹیج پر بلوایا جاتا رہا۔ خوبصورت ناظرین کی طلسمی نگاہوں کا توجہ بننے کے لطف سے محظوظ ہونے کی تسکین ناقابلِ فراموش تھی۔

فنکشن ایک نجی تعلیمی ادارے کی طرف سے سالانہ فئیرویل پارٹی کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا، اس ادارے میں ہم ہفتہ میں ایک دن پڑھانے جانا کرتے ہیں۔ اساتذہ اور طالب علموں سے دو برس کی رفاقت سے سبھی کے بارے میں تعارف رکھتے ہیں۔ فنکشن بہت عمدہ رہا۔ روایتی انداز میں اساتذہ کی جملہ تدریسی حرکات و سکنات کا تفنن طبع کی غرض سے خوب مذاق اُڑایا گیا۔

اواخر میں گروپ فوٹو ہوا، پرنسپل صاحب نے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ "میں پنجاب نہیں جاؤں گی"، پاکستانی فلم کا یہ ڈائیلاگ "شفیق احمد! روٹی کھول دو" اتنا مشہور ہوچکا ہے کہ روٹی کے کھلنے کا اعلان اسی ڈائیلاگ سے عموماً کیا جاتا ہے۔ روٹی کھلنے کے بعد سبھی کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ مجھے بھوک بہت لگی تھی، لیکن میں نے خوبصورت لڑکیوں کے بیچ ٹہلنے کو کھانے پر ترجیح دی۔ یونہی ٹھرکیوں کی طرح یہاں وہاں کبھی ایک ٹیبل پر اور کبھی دوسرے ٹیبل پر جا کر کھڑا ہوجاتا اور سمائل پاس کرنے کی مصنوعی کوشش کرتا، کہیں سے مثبت جواب آتا اور کہیں سے فٹے منہ والا کمنٹ ملتا۔

انسان اپنے اندر کی کمینگی چھپانے کی لاکھ کوشش کر لے، اس کا ٹھرک پن دب نہیں سکتا، کسی نہ کسی صورت سرانڈ کی اُبلتی ہانڈیا کی مانند اِرد گرد کو آلودہ ضرور کرتا ہے۔ جملہ طالبات کو اپنی باتوں میں مگن اور کھانا کھانے میں مصروف دیکھ کر مجھے ان کے ٹیبل کے آس پاس ٹہلنا مناسب نہ لگا۔ چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ کہاں بیٹھا جائے۔

اسٹیج خالی نظر تو جا کر اسٹیج پر دُلہا والی کرسی پر بیٹھ گیا، بیٹھنے کے باوجود ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی رہی اور بے قراری مضطرب کرتی رہی۔ آخر کار میرے اندر کے گھٹیا پن نے انگڑائی لی، میں نے آوارہ لونڈوں سامنے بیٹھی طالبات کو ایک ایک کرکے گھورنا شروع کر دیا کہ کون کیسے کھانا کھا رہی ہے، کھانے میں کیا لے رہی ہے، کتنا کھایا ہے اور کتنا ضائع کیا ہے، کیا پہنا ہے اور کیا نہیں اُوڑھا، لپ سٹک ٹھیک لگی ہے یا نہیں، بال ڈرائی کیے ہیں یا ڈرائر مشین سے سیٹ کیے ہیں، جوتے پرانے ہیں یا نئے یا مانگ کر پہن آئی ہے، موبائل کس برانڈ کا ہے، چہرے پر یاسیت چھائی ہے یا خوشی چھلک رہی ہے، آواز میں چہک ہے یا اُداسی کی گھٹا اُمنڈی ہوئی ہے، چال میں خرام ہے یا، نڈھال پن، حُسن میں کشش ہے یا ماندگی۔

مجھے اطمینان تھا کہ مجھے اس شغل میں غرق کوئی نہیں دیکھ رہا لیکن جلد یہ احساس ہوا کہ میرے سِوا ہر کوئی مجھے دیکھ رہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ گھٹیا آدمی ٹھرک پُنے سے نکل اور انسان کا بچہ بن کر اسٹیج سے اُتر۔ اپنے آپ میں شرمندہ سا ہو کر میں اسٹیج سے اُٹھا، ڈھٹائی سے قرب و جوار کی اپنے تئیں ذہن میں گردش کرنے والی منفی آراءکو ذہن سے جھٹک کر دوبارہ ٹیبل کے اِرد گرد چکر لگانا شروع کر دئیے۔

لڑکیوں کے بیچ غیر ضروری گھومتے پھرتے دیکھ کر میں نے کھانا تقسیم کرنے والوں کے ساتھ مل کر خدمت گار کا، روپ دھار لیا۔ اس بہانے کوئی شک بھی نہیں کرے گا اور کسی کو یہ احساس بھی نہیں ہوگا کہ میں ٹھرک جھاڑ رہا ہوں۔ عمر کے ایک خاص حصے میں جب عملی طور پر انسان سے کچھ بن نہیں پاتا تو وہ محض گھورنے اور تانکے جھانکنے کے علاوہ کیا کر سکتا ہے۔

میں جوان ہوں کہ حرکات وسکنات بوڑھوں والی ہیں، یوں کہیے کہ خود پر جزوقتی بڑھاپا طاری کر رکھا ہے تاکہ دوہرا فائدہ مل سکے۔ ایک گھنٹہ اسی شغل میں گزر گیا۔ آنکھیں چہروں کی متنوع بہتات سے اس قدر بوجھل ہوگئیں کہ بند ہونے کی بجائے پھٹے دیدوں کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ عجیب بات ہے، جسم میں کسی قسم کی کوئی حرکت محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی ذہن میں کوئی منفی خیال اُبھرا۔ یہ ایک حیران کُن عمل تھا۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے میں نے اندرونی قویٰ سے متصل جذبات کو اس طرح ٹیم کر لیا ہے کہ ہر قسم کے تلذذ سے تسکین لینے کے باوجود بظاہر کسی کو مطلقاً اس خفیہ کارروائی کی بھنک نہ پڑنے دوں۔

میں نے محسوس کیا، میں یہ کیا کر رہا ہوں، اس عمل کے ردِعمل میں مجھے کوئی ذہنی و تخیلی اور جسمانی طور پر ہیجان محسوس نہیں ہوا تو میں کیوں اس عمل میں اتنی شدت سے مبتلا ہوں۔ ہال میں چکر لگاتے ہوئے ایک چار سال کے بچے کو میں غور سے دیکھ رہا تھا جو آدھ گھنٹہ سے کھانا کھا رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ یہ چھوٹا سا بچہ اتنی دیر سے کھانا کھائے جاتا ہے۔ چھوٹے سے پیٹ میں کتنا کھانا چلا جائے گا، یہ بس کرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

خوبصورت لڑکیوں کے بیچ بچے کو بیٹھےکھانا کھاتے دیکھ کر مجھ سے ضبط نہ ہوسکا۔ عجیب قسم کی جیلسی محسوس ہوئی۔ اُس کے پاس گیا، چھوٹو! آپ نے کھانا کھا لیا۔ نہیں، ابھی کھا رہا ہوں۔ ٹھیک ہے، کھا لو۔ دو تین منٹ بعد اُسے دیکھا، وہ کھانا کھانے میں مصروف تھا، پھر اُس کے پاس گیا، چھوٹو! کھانا کھا لیا تم نے۔ نہیں، ابھی کھا رہا ہوں۔ زیادہ مت کھاؤ، پیٹ خراب ہو جائے گا۔ نہیں ہوگا، میں روزانہ ایسے ہی کھاتا ہوں۔

آپ کی ماماں کہاں ہے۔ پتہ نہیں۔ پاس بیٹھی لڑکی نے کہا۔ سر، اس کی ماما، اسے خود یہاں بٹھا کر گئی ہے۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ کھانا کھا رہی ہے۔ آپ اسے کھانے دیں۔ ٹھیک ہے۔ پانچ چھے منٹ بعد میں پھر اُس بچے کے سر پر سوار ہوگیا۔ کھانا کھا لیا تم نے۔ نہیں، ابھی کھا رہا ہوں۔ میں نے بچے کو کندھے سے پکڑا اور کرسی سے اُٹھا کر کہا، اپنی ماما کے پاس جاؤ۔ لڑکیوں نے میری طرف دیکھا اور کہا، سر آپ کیا کر رہے ہیں، بچے کو کھانا کھانے دیں، اُسے بھوک لگی ہے، پیٹ سے زیادہ تو نہیں کھائے گا، بچہ ہی تو ہے۔ ٹھیک ہے، بیٹھ جاؤ۔ کھا لو۔

چار پانچ منٹ بعد میں پھر اُس کے پاس گیا اور کہا، چھوٹو! کھانا کھا لیا۔ نہیں، ابھی کھا رہا ہوں۔ کتنا کھاؤ گے۔ پیٹ بھر کر کھاؤں گا۔ میں اُس کے پاس کھڑا ہوگیا کہ دیکھوں تو سہی، کتنا کھاتا ہے۔ بچہ تھا، کتنا کھائے گا۔ پانچ منٹ میں ایک بوٹی مشکل سے کھا سکا، بس چمچ گھما رہا تھا چاولوں میں اور دوسری بوٹی سے کھیلتا رہا۔

مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ اس نے شائد دو مہینے سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ قریب رُک کر دیکھنے سے احساس ہوا کہ میں کس قدر گھٹیا اور نیچ سوچ کا حامل ہوں، مجھے یہ خیال ہی نہیں آیا کہ چار برس کا بچہ کتنا کھانا کھا لے گا۔ ایک دم مجھے اپنے آپ پر شرمندگی محسوس ہوئی اور میں ندامت سے زمین میں گڑ گیا۔

مجھے یوں لگا جیسے میں تھری پیس کی قبر میں دفن ہوگیا ہوں اور بچے کے ہاتھ والا چمچ میرے منہ پر تھپڑوں کی صورت زور زور سے پڑ رہا ہے۔ میں نے فوراََ اس ڈراؤنے خیال کو ذہن جھٹکا، بچے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر اُسے پچکارا اور پاس بیٹھ کر اُس کے خراب کیے ہوئے چاولوں میں سے ایک دو چمچ چاول کھائے۔

یہ ایک منافقانہ عمل تھا جو بظاہر بڑا رحیم اور شفیق انداز کی صورت دکھائی دے رہا تھا لیکن فقط میں جانتا تھا کہ یہ منافقانہ عمل میں فقط اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی غرض سے انجام دے رہا ہوں جس کی کانوں کان کسی کو خبر بھی نہیں ہے۔ کھانا کھانے کے بعد سیلفی سیشن ہوا۔ سبھی نے سلفیاں بنوائیں۔ آدھ گھنٹہ یہی شغل جاری رہا۔ میری اس نیچ حرکت سے میری تو بھوک سمیت جیسے روح مرگئی تھی۔ تھری پیس، ٹائی، نئے جوتے اور دو گھنٹے کی سکن پالش کروا کے تیار ہونے والے بظاہر پُرکشش شخصیت کے حامل محسن خالد محسن دراصل ایک انتہائی گھٹیا سوچ کا حامل انسان ہے جس کا اصل روپ میں چھپے شیطان کو، اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔

جی چاہتا تھا، واش میں جا کر تھری پیس اُتار دوں، خود کو برہنہ کرکے آئینے کے سامنے کھڑا کروں اور دُنیا جہان کی گالیاں بکوں کہ تم پڑھے لکھے سو کالڈ شہرت و جنس کی ہوس کے مارے فقط ایک گندے انڈے ہو، جو چار برس کے بچے سے محض روٹی کے ایک ٹکرے پر جیلس ہو کر حقارت کی پاتال میں اُتر گئے، تمہیں ڈر نہیں لگا، تمہیں خدا کا خوف نہیں آیا، تمہیں شرم نہیں آئی، "تم کتنا کھاؤ گئے" یہ بھی کوئی بولنے والا جملہ ہے۔

بے شرم انسان! ذرا سوچو! کیا یہ بچہ تمہارے حصے کا کھانا کھا رہا ہے، کیا یہ تمہارے حصے کی خوشی چھین رہا ہے، کیا یہ تمہارے حصے کی پذیرائی لوٹ رہا ہے، کیا یہ تمہیں محبت سے دیکھنے والے لڑکی کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔ کیا یہ تمہاری بنائی ہوئی زمین پر بیٹھا ہے۔ کیا یہ تمہارے بچوں کا رزق کھا رہا ہے۔ کیا یہ تمہارے خودساختہ نیک نامی اور منافقانہ شہرت کے درپئے ہے۔ یہ بچہ آخر چاہتا کیا ہے، فقط کھانے کے چند نوالے۔

جی میں آیا، تھری پیس اُتار کر اپنے منہ پر ماروں، اُس وقت تک مارتا رہوں جب تک چہرہ لہولہان ہو کر مسخ نہ ہو جائے اور اندر کی اصل صورت باہر نہ نکل آئے لیکن ایسا کرنے کو بھی جگر چاہیے۔ گروپ فوٹو کے دوران اُس بچے کی والدہ کو ہال کے کونے میں اکیلے بچے کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر ذہن میں جانے کیا خیال آیا۔ میں اسٹیج سے اُتر کر اُس خاتون کے پاس گیا۔

میم! ذرا میرے ساتھ چلیے، چھوٹو، تم بھی ساتھ چلو۔ وہ پہلےجھجکی، پھر شرمائی اور لجائی پھر، نا چاہتے ہوئے اُٹھی اور ساتھ چلی آئی۔ میں نے کیمرے والے سے کہا، بھیا! میم اور اس کے جانِ جگر کے ساتھ ہماری اچھی سے فوٹو بناؤ۔ میم نے میری طرف غور سے دیکھا، کچھ کہنے کی کوشش کے باوجود چپ ہوگئی اور فوٹو بن گئی۔ سیلفی کے دوران بچے کو میں نے گود میں اُٹھانا چاہا لیکن ہمت نہ ہوئی، شرمساری کے عالم میں دائیں ٹانگ کے ساتھ چپکا کر شفیق و رحیم باپ کی منافقانہ اداکاری ضرور کی۔

یہ سب میں اس لیے کر رہا تھا کہ میرے اندر کا ضمیر مجھے مسلسل کچوکے لگا رہا تھا، دراصل میں ضمیر کے کوڑوں کی برستی ریکھا میں سر تا پا بھیگ گیا تھا۔ اس عمل نے مجھے ذرا سی تسکین بہم پہنچائی، مجھے لگا، ٹھیک ہے کچھ بہتر ہوگیا ہے، سلیفی بنانے کا خیال از خود آیا تھا اس کے باوجود ضمیر کی عدالت میں خود کو بے گناہ قرار دینے کی یہ ایک ناکام کوشش تھی۔

کھانا کھانے کے بعد طالبات اور جملہ اسٹاف دھیرے دھیرے گھروں کو رخصت ہونے لگے۔ پرنسپل صاحب کے ساتھ کھانے کا اشارہ ملا۔ دل بجھا ہوا تھا اس کے باوجود پیٹ میں کھانا ٹھونسے کی ہمت جانے کہاں سے آگئی کہ دوسروں سے زیادہ کھانے کا لالچ عین وقت سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد میں نے رخصت چاہی۔

راستے بھر میں یہی خیال ذہن میں گردش کرتا رہا کہ تم پڑھے لکھے، میچور، بالغ، سیانے، سمجھ دار، زمانہ ساز، تجربہ کار شریف آدمی ہو، یہ حرکت کیوں کی۔ کئی خیال ذہن میں آئے، گھر پہنچ کر تھری پیس اُتار کر پھینکنا چاہا لیکن خیال آیا کہ جس صاحب نے گفٹ کیا ہے اُس کا کیا قصور ہے۔ یہ تھری پیس تو محض ایک پہناوا ہے تمہارے برہنہ بدن کو ڈھاپنے کے لیے۔ پھینکنا ہے تو اپنے اندر کی غلاظت اور گندگی کو باہر نکال کر پھینکو تا کہ دوبارہ اس طرح کی نیچ حرکت سے باز، رہو۔

انسان کتنا عجیب ہے، کچھ بھی کر گزرتا ہے، ذرا بھی سوچتا نہیں کہ اس عمل سے کسی پر کیا گزرے گی۔ اس عمل کو کس قدر گہرائی سے محسوس کرے گا، جانے کب تک اس کی اذیت میں مبتلا رہے گا۔

میں پانچ برس کا تھا۔ ہمارا ننھیال اور ددھیال ایک ہی گاؤں میں تھا۔ دن میں دو تین چکر نانا کے گھر لگ جاتے تھے۔ ہمارے چار ماموں نانا کے ساتھ جوانٹ فیملی میں رہتے تھے، راستے میں چاروں میں سے کوئی ماموں مل جاتا، تو، اُس کے آگے ہاتھ پھیلا دیتے۔ ایک دن ایک ماموں اپنے بیٹے کے ساتھ دُکان پر کھڑے تھے۔ میں دوڑ کر اُن کے پاس گیا اور کہا، ماموں، پیسے۔ انھوں نے کہا، بیٹا! پیسے نہیں مانگتے۔ یہ کہہ کر اپنے بیٹے کو فروٹ کیک لے کر دیا اور میرے سامنے پورا فروٹ کیک کھلایا۔ میں دیر تک اُنھیں دیکھتا رہا۔ میں نے پھر ہاتھ بڑھا دیا۔ ماموں! پیسے۔ انھوں نے غصے میں کہا، کہا، نا! پیسے نہیں مانگتے۔ کہاں سے آجاتے ہیں۔

یہ منظر میرے ذہن میں ایسے نقش ہوا کہ آج تک بھول نہیں سکا۔ کچھ خریدتے ہوئے جب میں بٹوے سے پیسے نکالتا ہوں تو وہ منظر مجھے یاد آتا ہے اور وہ جملہ "بیٹا! پیسے نہیں مانگتے" مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔ بیتس برس اس واقعہ کو ہوگئے لیکن اس جملے کے اندر چھپی اذیت اور نفرت کی کسک آج بھی میرے دل پر ناسور کی طرح رستی رہتی ہے جسے میں چاہ کر بھی مندمل نہیں کر سکا۔

بستر پر لیٹے بتیس برس پرانے اور آج کے واقعہ کے تقابل نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

اُس بچے کے ذہن میں اگر میرا جملہ " کتنا کھاؤ گے" نقش ہوگیا تو وہ بھی شائد میری طرح عمر بھر اس جملے کی اذیت میں مبتلا رہے گا۔

محسن خالد محسنؔ

Mohsin Khalid Mohsin

محسن خالد محسن ؔ شاعر، ادیب، محقق، نقاد اور اُستاد ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے "کچھ کہنا ہے"، دُھند میں لپٹی شام"، آبِ رواں" شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی غزل میں تلمیحات کے موضوع پر ناردرن یونی ورسٹی نوشہرہ پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے تیس سے زائد تحقیقی مقالات ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے مصدقہ رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے معروف ادبی رسائل وجرائد میں ان کے متفرق موضوعات پر مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں۔ ادب، سماج، معاشرت، سیاست و حالاتِ پر ببانگِ دُہل اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔