پوری دنیا میں زمانہ قدیم کےطور طریقے اور رسمُ ورِواج وقت کے بدلتے تقاضوں سےہم آہنگ ہورہےہیں۔ مگربد قسمتی سےپاکستان ان ملکوں کی فہرست میں شامل ھے جہاں کا فرسودہ نظام ہی اپنے بقا ٔ کی جنگ میں مصروف نظر آتاہے۔ جبکہ یہاں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور جدید دور کے تقاضے اپنے ارتقا ٔ کےلیے لوگوں کے ذہنوں میں شعور کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جہاں کی عوام اب تک اس مسئلے میں اُلجھی ہوئی ہے کہ پولیو کہ مَرض کے قطرے پِلانا حلال ہے کہ حرام۔
ستّر سالہ اس ملک کی تاریخ میں ابھی تک ملک پر قابض وڈیروں اور جاگیرداروں نے ملک کی ستّر فیصد سے زیادہ عوام کے ذہنوں کو بنجر کر رکھا ہے۔ ان کےذہنوں پرغلامانہ سوچ اوران کی زبانوں پر اپنی پسند کے نعروں کو اس طرح چسپاں کیا ہے کہ شایدآنے والی کئی صدیوں تک ان کی نسلیں دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر سے ناواقف رہیں۔
دنیا کےتمام ہی ترقی یافتہ معاشروں کی ترقی میں صحت اور تعلیم ہی بنیادی جُز رہے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں صحتِ و تعلیم کو بس سانوی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا کوئی بھی بچہ اس ملک کے تعلیمی اداروں میں نہ تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اور نہ ہی یہ لوگ اس ملک کے اسپتالوں میں اپنا علاج کروانا پسند کرتے ہیں۔ شاید ان کی یہ دور اندیشی درست ہے کیوں کےصحت اور تعلیم پر جتنی رقم اورتوجہ دینی چاہیے۔ ان اہداف سے یہ طبقہ مسلسل انحراف کرتا رہا ہے۔
کراچی جیسے میٹروپولیٹن اور کوسمو پولیٹن شہر جس کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے وہاں گنتی کے چند اسپتال طبّی سہولیات فراہم کرنے لیےبنا کر دو واضح طبقوں میں تقسیم کر دیے۔ اگردیکھا جائے تو شہر کی اَسّی فیصد آبادی جو مِڈل اور لورمِڈل کلاس ہے۔ جناح، سِول اور عباسی جیسے اسپتال ان کےنام کر دیے۔ جبکہ آغاخان اور لیاقت نیشنل جیسےاسپتالوں کو اُمرأ طبقے کےلیے رکھ چھوڑا۔ حکمرانوں نےاپنے علاج معالجے کے لیے غیر ملکی اسپتالوں کا رُخ کیا تو اُمرأ نے اعلٰؒی نسل کے اسپتالوں میں ڈیرے جمع لیے۔
ملک کی غریب عوام کو ریاست کی طرف سےفراہم کردہ عددی کمی، مہنگی اور ناکافی طبّی سہولیات کے باعث اپنے علاج معالجے کا خود ہی بندوبست کرنا پڑا۔
بھلا ہو ڈبّے شاہ اور بوتل والے با با جیسےلوگوں کا جنھوں نے اپنے مزارات پر کچّے ذہنوں اور کم عقیدے کے لوگوں کو ہر قسم کا ریلیف دینے کا بیڑا اُٹھایا۔ وہیں پختہ عقیدہ رکھنے والوں کے لیے چھوٹے اور بڑے حکیم صاحبوں نے اعصابی اور ہر قسم کی جسمانی کمزوری دور کرنے کے لیے اپنی اپنی دوکانیں کھول لیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ابھی عوام میں کچھ باشعور لوگ باقی ہیں۔ ان کی تمام دور اندیشیوں اور تحفظٓات کو دیکھتے ہوۓ اطائی ڈاکٹروں نے بھی اپنے مطّبوں میں ان کی ضروریات کی تمام سہولیات مہیا کرنا شروع کردیں۔ یہاں تک کہ عملِ جرّاحی جیسے علاج بھی ان اطائی ڈاکٹروں کی خاصیت ہیں۔ پھرازل سے اچھائی کے ساتھ بُرائی کاسنگم دیکھتے ہوۓ کچھ جعلی ڈاکٹراور کمپوڈر بھی میدان میں آگئے۔ ملک میں طبّی سہولیات کے نام پر انسانی صحت سے جس طرح کھیلا جا رہا ہے۔ وہ حکمرانوں اور ان کےبنائے ہوۓ نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان تمام باتوں اندازہ ہوتا ہے کہ دہی علاقوں کی غلامانہ سوچ رکھنے والے لوگوں کے علاوہ ہماری پڑھی لکھی عوام بھی اپنے مسائل میں اسقدر الجھی ہوئی ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ۔ اسی لیے ہمارے حکمراں سوچتے ہیں کہ جیسے چل رہا ہے چلنے دو۔
خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کوخیال آپ اپنی حالت کےبدلنے کا