چھوٹے صاحب کی شادی تھی اور خاندانی روایات کے مطابق آنے والی بہو کے لئے ذاتی ملازمہ رکھنا تھی اور قرعہ فال نکلا چھوٹے صاحب کے ذاتی ڈرایور سکندر کی نئی نویلی دلہن کے نام جس کی پچھلے ہی ہفتے شادی ہوئی تھی اور وہ بڑی بی بی جی کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئی تھی۔۔
پٹر پٹر انگریزی بولنے والی ماڈرن میڈم صاحبہ کے لیے یہ ایک اچھا انتخاب تھا کیونکہ رجو دسویں جماعت پاس تھی اور مجبور بھی کہ اس کے گھر والے سکندر کو ابھی گھر بیٹھی ہوئی پانچ بہنیں بیاہنی تھیں اور اس کے اوپر بوڑھے ماں باپ کی بھی ذمہ داری تھی۔۔
چھوٹے صاحب کی شادی تھی کہ رنگ و نور اور روشنیوں کا ایک سیلاب تھا۔ کوٹھی برقی قمقموں سے جگمگاتی رہتی۔ جلتی بجھتی روشنیاں ماحول میں ایک طلسم پیدا کر تی رہتیں۔ سر شام موسیقی بجنے لگتی تھی۔ کئی دن تک روزانہ شام کو تقریبات چلتیں، کھانے اڑائےجاتے۔۔ خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے۔۔
رجو سکندر کے چچا کی یتیم بچی تھی جس کی ماں طویل بیماری کے بعد دس دن پہلے دنیا سے رخصت ہوئی۔ تو اس یتیم مسکین کو سہارا دہنے کے لیے اس کے تایا رجو کو سکندر سے بیاہ کے اپنے گھر لے آئے۔۔ ڈھول نہ باجے۔ نہ خوشیاں نہ شادیانے۔۔ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور احسان الگ۔ تین کپڑوں میں کرائے کے کمرے سے سکندر کے گھر آ گئی اور اب یہاں سرونٹ کوارٹر میں۔۔
شادی ہال میں شہر کے بہترین گلوکار اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔ انواع و اقسام کے اشتہا انگیز پکوان اور مشروبات۔۔ زرق برق ملبوسات میں بیگمات اور لڑکیاں تتلیوں کی طرح لہکتی پھر رہی تھیں اور لڑکے بالے ان کے اردگرد منڈلا رہے تھے۔۔ ایسے ہوتی ہیں شادیاں؟
مگر وہ تو اس انتظار میں تھی کہ کب نئی مالکن سے ملاقات ہو اور وہ انہیں سہارا دیے ان کے کمرے تک لے جائے۔۔ لیکن یہ کیا کہ یہاں سہاروں کی ضرورت بالکل نہیں تھی دلہن اپنے دولہا کے بازو میں بازو ڈال کے اسٹیج تک اٹھلاتی ہوئی چلی گئی اور عروسی کمرے میں بھی۔۔ اور وہ لاونج میں بیٹھی رہی جب تک کے چھوٹے صاحب نے کافی لانے کا نہ کہا۔۔
وہ اپنی شادی والے دن جب سکندر کے گھر گئی تو شرم سے دوہری ہوئی جاتی تھی۔ اس کے قدم من من بھر کے ہورہے تھے۔ آنکھوں سے ساون کی جھڑی جاری تھی اس کی نندیں اسے سہارا دیے سکندر کے پاس چھوڑ گئیں تو وہ شرم کے مارے لال گلابی ہوی جاتی تھی اور اس سے نظر نہ ملا پاتی تھی۔۔
ولیمے والے دن اس کا تفصیلی تعارف تہمینہ میڈم سے ہوا تو وہ بہت خوش ہوئیں کہ شکر ہے اس گھر میں کوی انگلش بولنے والا نہ سہی سمجھنے والا ہی نظر آ گیا اور رجو بولتی بھی تو اردو تھی۔۔ اس دن کے بعد تہمینہ میڈم نے اپنے سارے چھوٹے موٹے کام رجو کے سپرد کر دئے اور سب کو کہا کہ آج سے اس کا نام رضیہ ہی بلایا جائےگا۔ وہ میڈم کی بے دام غلام بن گئی تھی کہ اس کا نام نوکروں والا نہیں عزت دار لوگوں کی طرح رکھ دیا گیا تھا۔ اس کی میڈم کا شہر میں بڑا نام تھا۔ وہ انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی بہت بڑی علمبردار تھیں۔۔
شادی کے بعد دونوں میاں بیوی خوشیوں کے جھولوں میں جھولتے رہتے۔ دعوتوں کا ایک لا متناہی سلسلہ تھا جو ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔۔ رضیہ روزانہ میڈم کے ڈریس پریس کرتی۔ میچنگ جوتے، پرس اور جیولری نکالنے اور تیار ہونے میں ان کی مدد کرتی۔ صاحب آتے تو وہ کہیں نہ کہیں دعوت پر یا گھومنے پھرنے اور کھانا کھانے چلے جاتے۔ اکثر لنچ یا ڈنر باہر ہی ہوتا۔۔ وہ ان کی واپسی تک ان کے سارے کام نمٹا کے کمرہ صاف ستھرا کروا دیتی۔۔
ایک دن رضیہ کی طبیعت اچھی نہ تھی لیکن وہ میڈم کے انتظار میں بیٹھی رہی کیونکہ وہ اس کے ہاتھ کی ہی کافی پسند کرتی تھیں۔۔ میڈم تہمینہ صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اندر آ رہی تھیں کہ ان کو چکر سا آ گیا اور لڑکھڑا گییں۔ وہ تو صاحب نے باہوں میں تھام لیا ورنہ گر جاتیں۔۔ کافی کا آرڈر ہوا۔ چینی کافی اور پانی ملا کے پھینٹنا جو شروع کیا تو کافی کی بھینی بھینی خوشبو جو اس کو بھی بھاتی تھی آج کچھ اچھی نہ لگی۔ مزید پھینٹنے سے کافی کا جھاگ بڑھتا گیا اور اس کا دل متلانے لگا اور وہ ابکائی روکتی ہوئی بھاگی۔۔
اگلے دن میذم اپنی ڈاکٹر کے پاس گییں۔ ظاہر ہے کہ رضیہ ساتھ تھی۔ ڈاکٹر نے خوشخبری سنای تو میڈم کے ہوش اڑ گئے۔ وہ ابھی بچہ نہ چاہتی تھیں۔ ابھی تو ان کے پہننے اوڑھنے کے دن تھے۔ ابھی ان کے ڈھیروں اساینمنٹ باقی تھے۔ چاہتی تو ابھی رضیہ بھی نہ تھی کہ میڈم صاحبہ کا خیال کون رکھے گا اگر وہ خود ہی بیمار پڑ گئی تو لیکن اس کی ساس کہتی تھی کہ یہ کوئی بیماری تو نہیں ہوتی نہ۔۔
اب رضیہ کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی۔ صبح نہار منہ بھیگے ہوے بادام چھیل کے کمرے میں پہنچاے جاتے۔ پھر تازہ پھلوں کا جوس۔ ناشتے میں توس، جیم، شہد، مکھن، مارجرین، چاکلیٹ غرض کیا نہ ہوتا۔۔ صاحب کا حکم تھا کہ بیگم صاحبہ کی خوراک کا خاص خیال رکھا جائے۔ دوپہر کو فروٹ اور سلاد بچے کی صحت کے لیے ضروری تھا اور رات کو تو صاحب خود نوالے بنا بنا کر دیتے اور وہ با دل نا خواستہ ہی کھا پاتیں۔۔ خود رضیہ کا بھی اس حالت میں کھانے کو دل نہ کرتا لیکن اسے اپنے بچے کے لئے خود کچھ نہ کچھ لینا ہی پڑتا کیونکہ یہ ناز نخرے تو امیروں کے چونچلے ہوتے ہیں نا۔۔
ہر پندرہ دن بعد ڈاکٹر کی طرف چکر لگتا۔ میڈم کے پیشاب اور خون کے نمونے لئے جاتے۔ ٹیسٹ ہوتے اور نتیجہ یہ نکالا جاتا کہ ان کو خوراک اور خون کی کمی ہے۔ دنیا جہان کے ملٹی وٹامن کیلشیم وٹامن سی اور وٹامن ڈی دئے جاتے اور بیڈ ریسٹ تجویز کی جاتی۔۔ اس دوران رضیہ میڈم کا بیگ اٹھائے اپنا وجود سنبھالتی مستقل کرسی کے پیچھے کھڑی رہتی۔۔ ایک بار ڈاکٹر کی نظر اس پر پڑی تو کہنے لگی کہ دوڑ بھاگ کیا کرو زچگی میں آسانی رہتی ہے اور دھوپ میں بیٹھا کرو وٹامن ڈی بنتا ہے۔۔
میڈم تہمینہ اپنا آپ بھول کر بھی حقوق نسواں سے متعلق میٹنگز اور سیمینار اٹینڈ کرتیں اور عام عورت کے حق میں آواز اٹھاتیں اور رضیہ کمرے کے باہر بیٹھ کر ان کی واپسی کا انتظار کیا کرتی۔۔ جب وہ تھکی ہاری گھر پہنچتیں تو رضیہ نیچے بیٹھ کے ان کے پاوں سے جوتے اتارتی کیونکہ میڈم کا جھکنا اور نیچے بیٹھنا تو بچے کے لیے اچھا نہیں تھا۔۔
میڈم تہمینہ معاشرے کے مظالم سہتی اور پسی ہوئی عورت کے استحصال کے خلاف تقاریر اور کبھی کبھی واک کا بھی اہتمام کروایا کرتی تھیں۔ اتنی محنت سے ان کے پاوں سوج جاتے اور رضیہ گرم پانی میں نمک ملا کے ان کے پاوں پانی میں ڈبوئے رکھتی۔ پھر تولیے سے خشک کرتی، ان پر لوشن لگاتی اور اتنی دیر تک سہلاتی رہتی جب تک کے وہ سو نہ جاتیں۔۔
اب رضیہ کو ایک ہی فکر تھی کہ دونوں کا وقت نزدیک آ چلا تھا۔ دو چار دن تو اس کو بھی آرام چاہییے ہی ہوگا تو ایسی صورت میں میڈم صاحبہ کا خیال کون رکھے گا۔۔ اب تو ڈاکٹر نے میڈم صاحبہ کو سیڑھیاں چڑھنے اترنے سے بھی منع کر دیا تھا۔ اور وہ نیچے بڑی بی بی جی کے ساتھ والے کمرے میں رہایش پزیر تھیں۔۔ میڈم صاحبہ کو اہک سیمینار کے لیے ایک دن کے لئے کسی اور شہر جانا تھا۔ ان کی ساری پیکنگ رضیہ نے کی۔ اوپر والے کمرے سے سامان پیک کرکے نیچے پہنچایا۔ پھر انہوں نے اپنی کوی چیز لینے کے لیے اوپر بھیجا۔ اس کی کمر میں درد تھا مگر ساری چیزوں کے بارے میں پتا بھی تو اسی کو تھا نا اس لیے انکار نہ کر سکی۔ بلکل گاڑی میں بیٹھتے ہوے میڈم نے اپنے دوسرے میچنگ سن گلاسز لانے کا کہا۔ وہ ایک ہاتھ کمر پر اور دوسرا پیٹ پر رکھے اوپر پہنچی۔ واپسی کا سفر اور بھی مشکل تھا۔ میڈم صاحبہ زینے کے نیچے کھڑی سخت غصہ میں تھیں۔۔ اسے افسوس ہوا کہ میڈم کو میری سستی کی وجہ سے انتظار کرنا پڑا۔۔ لیکن تکلیف کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکی اور آخری سیڑھی پر بیٹھتی چلی گئی۔۔
یہ آخری مہینے کے شروع کے ہی دن تھے کہ رضیہ کو تکلیف ہوگئی مگر وہ خوش تھی کہ ڈاکٹر نے صحیح کہا تھا کہ چلتے پھرتے رہنے سے آسانی رہے گی اور یوں وہ میڈم صاحبہ کا بھی ساتھ دے سکے گی۔۔ بیٹا بھی صحت مند تھا اور اس کے لیے قدرت نے دودھ بھی وافر اتارا تھا۔۔
تین دن میڈم صاحبہ نے اس کے بغیر گزارا کیا پھر بلا بھیجا کہ اب اور کتنا آرام کرو گی۔۔ ان کو ڈاکٹر کے پاس جانا تھا آپریشن کے لئے کہ وہ اتنی زیادہ درد اور تکلیف برداشت نہ کر پاییں گی۔ اسے خود بھی بہت نقاہت تھی ابھی۔ چکر آتے تھے ابھی لیکن میڈم صاحبہ کا حکم سر آنکھوں پر۔۔ یہ وقت تو گزر ہی جائےگا مگر وہ کسی اور کی خدمت کی عادی ہو جاییں گی۔۔
نرس نے مبارک باد دی کہ چھوٹے صاحب کا بیٹا ہوا ہے تو مبارک سلامت کا شور مچ گیا۔ خزانوں کے منہ کھول دیے گے۔ مٹھاییوں کی دکانیں خالی ہوگییں۔ رضیہ بچے کو گود میں کھلاتی رہی اور اس کے اپنے بیٹے نے دادی کی گود میں رو رو کے رات گزاری۔۔
منہ اندھرے میڈم اور بیٹا جب سوے ہوئے تھے وہ دبے پاوں نکلی اور گھر پہنچ کے اپنے روتے ہوے بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔۔
ڈاکٹر نے کہا کہ منے صاحب کمزور ہیں ان کے لیے ماں کا دودھ بہت زیادہ ضروری ہے مگر۔۔ میڈم صاحبہ کو اپنا فگر بہت عزیز تھا۔۔ اور انہیں ابھی حقوق نسواں کے لیے بہت کام کرنا تھا۔۔ رضیہ ایک بڑے دوپٹے میں اپنا وجود چھپائے بیٹھی تھی کہ ڈاکٹر نے تجویز دی کہ اس کام کے لیے کسی اور عورت کی خدمات لے لی جاییں۔۔ تو میڈم تہمینہ صاحبہ کی نظریں رضیہ پر جا ٹھہریں۔۔
اور ادھر رضیہ کے بچے کی دادی نے اپنا چائےکا کپ فیڈر میں ڈال کے بلکتے ہوئے بچے کے منہ میں دے دیا۔۔