1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. یوسا کی یاد میں

یوسا کی یاد میں

" ایک ناول کا مطالعہ، ایک نئی، متبادل زندگی بسر کرنا ہے": یوسا کی یاد میں

ماریو برگس یوسا، لاطینی امریکی ادیبوں کی اس نسل کے سربرآوردہ فکشن نگار تھے، جس کے لیے یورپ، لاطینی امریکی فکشن کا گمراہ کن نام بوم استعمال کرتی ہے۔

بوم کسی چیز کا اچانک بڑھ جانا، مقبول ہوجانا اور اہمیت اختیار کرجانا ہے۔ لاطینی امریکی فکشن، بزنس نہیں تھا، جس میں کوئی رجحان اچانک مقبول ہوگیا ہو اور پھر اس پر زوال آگیا ہو۔

یہ فکشن، ادبیات عالم میں ایک حقیقی نیا باب ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ فکشن ادب کی یورپی روایت سے استفادہ کرتا ہے، مگر جس تجربے اور حقیقت کو لکھتا ہے، وہ خالص لاطینی امریکی یعنی پیرو، ارجنٹائن، کولمبیا، چلی وغیرہ کی ہے۔

نیز جس اسلوب میں لکھتا ہے، وہ بھی لاطینی امریکی ہے۔ یورپ کے لیے جادوئی حقیقت نگاری ایک تکنیک ہے، جب کہ ایلیفو کارپینتئر، حوان رلفو، مارکیز، یوسا، بورخیس، ازابیل الاندو، کارلوس فینتوس ودیگر کے لیے روزمرہ کی حقیقت ہے۔ سچ یہ ہے کہ جسے جادوئی حقیقت نگاری کہا جاتا ہے، وہ لاطینی امریکی فکشن میں، حقیقت نگاری ہے۔

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ لاطینی امریکی فکشن کے سب نام ایک ہی طرح سے لکھتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ یوسا، مارکیز، حوان رلفو، بورخیس سے کئی حوالوں سے جدا ہے۔ یوسا نے جس طرح آمریت، تشدد، جبر کو موضوع بنایا ہے، وہ اسی سے مخصوص ہے۔

یوسا کے بچپن اور لڑکپن نے ایک طرح سے، اس کے فکشن کو بنیادی مواد فراہم کیا ہے۔ اس کی پیدائش سے پہلے، اس کے ماں باپ میں علیحدگی ہوگئی تھی مگر اسے بتایا گیا کہ اس کا باپ مر چکا ہے۔ مگر دس برس کی عمر میں اس کی ملاقات نہ صرف باپ سے ہوئی بلکہ ا س کی تعلیم کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

اس کے لیے سچ اور جھوٹ، زندگی کے کھیل کا اہم ترین حصہ بن گئے۔ سچ کی اوٹ میں جھوٹ اور جھوٹ کے پردے میں سچ ہوسکتا ہے، اس کی حقیقی زندگی اور فکشن میں بار بار ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ پہلے اشتراکیت کا پرجوش حامی تھا، مگر کیوبا کے انقلاب کے بعد، اس نے اشتراکیت کو ایک جھوٹ، ایک آئیڈیالوجی سمجھا، جس نے جبر کے سچ کو چھپا رکھا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس کی اشتراکیت سے گہری ہم دردی، ایک غلطی تھی۔ اس کے باپ نے اسے ملٹری اکیڈمی میں داخل کروایا۔

یہیں اس نے فوج کے سامنے کے روشن چہرے کے پیچھے، بدترین تاریکی کو شناخت کیا۔ اس نے پہلے دوناولوں: دی ٹائم آف ہیرو اور دی گرین ہاوس میں اس تجربے کو لکھا۔ اس نے فوج سے متعلق ایک بھیانک سچ لکھ دیا۔ یہ کہ پیرو کی فوج، طوائفوں کو جنگل میں جنگ آزما فوجیوں کو پیش کرتی ہے۔

اس نے 1958 میں ایک جنگل کا سفر کیا تھا، جہاں گرین ہاوس نام کا قحبہ خانہ دیکھا تھا۔ جنگل میں گرین ہاوس نام کا قحبہ خانہ، ایک اور سچ کا انکشاف تھا، جس پر التباس کا پردہ پڑا تھا۔ اس تجربے کے کچھ اجزا کو اس نے اپنے تیسرے ناول: کنورسیشن ان دی بروتھل میں بھی لکھا۔

یوسا کی طبیعت میں ہنگامہ پسندی تھی۔ اسے تنازعات میں گھرے رہنے سے وحشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ ان ادیبوں سے بالکل مختلف تھا، جنھیں تنہائی اور دل کا امن سب سے بڑھ کر عزیز ہوتے ہیں۔

وہ ایک عرصے تک سیاست میں حصہ لیتا رہا۔ صدارتی انتخاب بھی لڑا اور ناکام ہوا۔ کچھ صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کرنے والے سرکاری کمیشن کا رکن بھی بنا اور سرکاری مئوقف ہی کی تائید کی۔

اس کا نام بدنام زمانہ پانامہ اور پینڈورا پیپر میں بھی آیا۔ اس نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مارکیز پر لکھا، مگر اسی مارکیز کو ایک فلم کے افتتاح کے موقع پر سر عام تھپٹر جڑدیا تھا۔ اگرچہ اس کا سبب، ایک راز ہی ہے، مگر بعض کا خیال ہے کہ جھگڑے کی وجہ مارکیز کی یوسا کی بیوی میں دل چسپی تھی۔

یوسا نے دو شادیاں کیں۔ ددنوں طلاق پر ختم ہوئیں۔ پہلی شادی، دس سال، دوسری پچاس سال چلی۔ کوئی سات برس ازابیل پریسلر نام کی خاتون کے ساتھ رہا۔

یوسا کے پاس دو شہریتیں تھیں۔ پیرو اور سپین۔ وہ خود کو دنیا کا شہری بھی کہتا تھا۔ ایک جگہ لکھتا ہے کہ وہ ہر شہر میں ایک ایسی بھٹ تلاش کر لیتا ہے، جس میں وہ خوش رہتا ہے، اپنی پسند کے دوست، کتابیں اور ماحول، اسے میسر آجاتا ہے، تاہم وہ پیرو کو اپنی روح میں بسا ہوا پاتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ پیرو سے دوری، اسے پیرو کی یادوں کے زیادہ قریب رکھتی ہے اور یہی یادیں اس کے فکشن کی طاقت ہیں۔

یوسا نے متعدد ناول لکھے۔ ان میں آنٹ جولیا اینڈ دی سکرپٹ رائٹر، دی وار آف دی اینڈ آف آف دی ورلڈ، دی سٹوری ٹیلڑ، دی فیسٹ ٘ف دی گوٹ دی وے ٹو پیراڈائز اور دیگر شامل ہیں۔ اس نے ناولوں میں اسلوب کے تجربے بھی کیے۔ اس کے آخری ناولوں میں اختصار ہے اور مزاح ہے۔

اس نے ایک جگہ بیان کیا ہے کہ اس نے کچھ رسائل میں قسط وار ناول پڑھے تو اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بڑے ناول ضخیم ہوتے ہیں۔ اس التباس کو دور ہونے میں اسے کوئی چالیس برس لگے۔

اس کی کتاب نوجوان ناول نگار کے نام خطوط، ناول کے فن پر چند ممتاز کتابوں میں شامل ہے۔

ہمارے دوست حمید شاہد کا عمر میمن سے یوسا کے تعلق سے مکالمہ بھی لازمی پڑھی جانے والی کتابوں میں شامل ہے۔

اسے 2010 میں نوبیل انعام ملا تھا۔ اس نے اس موقع پر "پڑھنے اور فکشن کی مدح میں" کے عنوان سے جو تقریر کی تھی، وہ یوسا ہی کو نہیں، فکشن اور لاطینی امریکی فکشن کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

یوسا کہتا ہے کہ ستر برس بعد میں محسوس کرتاہوں کہ میں نے جب پانچ برس کی عمر میں پڑھنا شرو ع کیا تو یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ بنا۔ کتابوں نے اس کے لیے زمان و مکاں کا تجربہ بدل دیا۔ پڑھنے ہی کے عمل نے خواب کو زندگی اور زندگی کو خواب میں بدل دینے کا کام کیا۔

وہ اپنی ناول نگاری میں اپنے اساتذہ کا ذکر کرنا نہیں بھولتا۔ اس نے فلابیئر، فاکنر، سر وانٹس، ڈکنز، بالزاک، ٹالسٹائی، کونارڈ، ٹامس مان، کامیو، آرویل سے یہ سیکھا کہ ناول صرف موضوع نہیں، ہیئت، تکنیک اور اسلوب بھی ہے۔

فرانس جانا، یوسا کاخواب تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پیرس کی فضا، اس کے لکھنے کو ابدی تحریک اور بامعنی رخ دے گی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہیں پیرس میں اس پر کھلا کہ وہ اور اس کے معاصرین، لاطینی امریکی فکشن کی صورت، ایک انقلاب برپا کررہے ہیں۔

یوسا فکشن کی طاقت، اثر اور کردار کو کئی طرح سے بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پڑھنے کی مانند، لکھنا بھی، زندگی کے ناکافی پن کے خلاف مزاحمت ہے۔ زندگی کو ناکافی بنانے والی کئی قوتیں ہیں۔ بیرونی اور اندرونی۔

فکشن کبھی ان قوتوں کو راست، کبھی بالواسطہ مخاطب کرتا ہے۔ فکشن ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم مقتدرہ، سماجی قوتوں، تقدیر اور خود اپنی بشری حدوں کے سبب جس زندگی کو جی نہیں سکتے، اس کی ایک نئی کئی متبادل زندگیوں کو فکشن میں جی سکیں۔

ایک ناول کا مطالعہ، ایک نئی، جدا، متبادل، متوازی زندگی کو گویا بسر کرنا ہے۔ یوسا، فکشن کی اس قوت کو اہل اقتدار کے لیے ایک خطرہ بھی قرار دیتا ہے۔ آرٹ، بدترین حقیقی زندگی کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرکے بھی خطرناک ہوسکتا ہے اور اس کی متبادل زندگی کو پیش کرکے بھی۔ ہر متبادل زندگی، ایک وضع کا اختیار ہے۔ عام آدمی کا کوئی بھی اختیار مقتدرہ کو کیوں کر قبول ہوسکتا ہے؟

دنیا کو بڑا فکشن اور فکشن کی بڑی بصیرت دینے والا یوسا کل رخصت ہوا۔

الوداع یوسا۔