1. ہوم
  2. کالمز
  3. سعدیہ بشیر
  4. کتنا طوطے کو پڑھایا

کتنا طوطے کو پڑھایا

ایک دوڑ سی لگی ہے کہ کون جیتے گا اور کس کو کیسے ہرایا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ راستہ طے ہے اور نہ اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ جس کا جب جی چاہے وہ جامد مقام سے ہی جیت کا اعلان کر سکتا ہے اور دریا پار کرنے والوں سے لہروں کے بھید بھاؤ کے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن سے دریا کا تعلق ہی نہیں۔ یہ علم کا سودا ہے۔ جس میں صارف کی دلچسپی سے قطع نظر اسے وہ تھیلے بھرنے کو کہا جاتا ہے جو اسے ڈیپریشن تک لے جاتے ہیں۔

ہر سال علم کے یہ مصنوعی سمندر ذہنی و جانی کتنی قربانیاں لے رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار خوف ناک ہیں۔ جن اساتذہ کے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ وہ جن طلبہ کو تعلیم دے رہے ہیں ان کا مینٹل لیول کیا ہے اور ان کے سوالات اور الجھن کا سرا کس طریق سے سلجھایا جا سکتا ہے۔ تو دو طرفہ تکدر کی ابتدا ہوتی ہے۔ جو نمبرز کی دوڑ میں سوال کرنے والے طلبہ پر بدترین رکاوٹیں لگاتی ہے۔

یہ مسائل پیش آتے رہیں گے کیونکہ ہم قابل اور تجربہ کار لوگ نکال کر نئی بھرتیاں کرتے رہیں گے اور یہ سلسلہ روایت کا روپ دھار لے گا۔ ہم جس نسل کو پڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ان کی دماغی صلاحیتوں کے مطابق لیکچر تیار کرنا ہیں۔ شاہین کو کرگس بنانے کے لیے انجکشن تیار نہیں کرنے۔ لیکن بدقسمتی سے نئی نسل کی سوچ و فکر کو محدود کیا جا رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ابھی تک رپورٹ کارڈ بنانے کا طریقہ ہی وضع نہیں کیا۔

حد تو یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جو qualance certificate سے متعلق جو نوٹیفکیشنز جاری کیے ہیں وہ سکروٹنگ میں تسلیم ہی نہیں کیے جاتے۔ اسے لاپرواہی کہیے یا بے نیازی لیکن بہت سے ڈگری پروگرامز کی کوئی ویلیو ہی نہیں اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایک نوٹیفکیشن بحثیت مجموعی جاری کیا جاتا ہے تو ایک لمبی قطار لگوانے کی کیا ضرورت ہے کہ جس جس کے پاس یہ ڈگری ہے۔ وہ اپنے نام سے بھی یہ نوٹیفکیشن الگ سے بنوائے۔ یعنی آپ کے کہے کی حیثیت صفر ہے۔

ان حالات میں احتساب اور نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ یونیورسٹیز کے مابین پروگرام تبدیل کیے جائیں اور ان کے نصاب میں بھی جدید ضروریات کے مطابق تبدیلی لائی جاوے۔ بلی بھی اپنے بچوں کو سات گھر پھرواتی ہے تا کہ انھیں ہر طرح کے ماحول سے واقف کروایا جائے اور ہم دس بیس سال ایک ہی سبق کے خلاصہ پر لوح محفوظ کی صورت لیکچر تیار کرکے قلب مطمئنہ پر فخر کر رہے ہیں۔

رواں سال نویں اور گیارویں جماعت کا نصاب سامنے آیا ہے۔ شومئی قسمت کہ نصاب ساز اردو کی علمی اور لسانی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ گیارہویں جماعت کے اردو نصاب کو جتنا مختصر کر دیا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منصوبہ ساز اردو شکنی پر مائل ہیں۔ وہ چاہتے ہی نہیں کہ اردو زبان پنپ سکے۔ اتنے مختصر نصاب کے ساتھ کوئی کیسے انصاف کرے گا؟ کلاسیکی شاعر اور مصنفین تو اس نصاب کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ ہم سے اچھے تو انگریز تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے جھنڈے تلے اردو زبان کو ترقی دے گئے۔

اگرچہ یہ ترویج خالصتاً ان کے لیے تھی۔ مگر بعد میں آنے والوں کے لیے اردو کی راہیں متعین ہوئیں۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب اردو بولنے والے ناپید ہوں گے اور رومن اردو اپنا جادو چلا چکی ہوگی۔ تجارت و علم کی ترقی میں بھی ایک اہم بات یہ ہے کہ اشخاص کے باہمی میل جول سے سے زبانیں اور رواداری، تحمل و برداشت کے رویے پروان چڑھیں۔ جب ایک استاد طالب علم کا اختلافی نوٹ یا سوال کلاس میں برداشت نہیں کر سکتا تو وہ کس طرح کے بند دماغوں کو جنریٹ کر رہا ہے یہ سمجھنا مشکل نہیں۔

اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو

بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے

(صدا انبالوی)

یہ بات طے ہونا چاہیے کہ یونیورسٹیز میں اساتذہ اپنے مسلک کی تعلیم دینے نہیں آتے نہ ہی اپنے وضع کردہ گھریلو ماحول کو سب پہ نافذ کرنے کا معاوضہ لیتے ہیں۔ وہ اپنے لیکچرز تیار کرنے پر مامور ہیں نہ کہ طالب علموں کے سوال روکنے پر۔ لیکن اکثر استاد خود کو دفاعی مورچوں پہ متعین مجاہدین سمجھتے ہیں اورحالت جنگ میں طالب علموں کے ذہن کم زور کرنے اور ان کا مستقبل تباہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ اکثر یونیورسٹیز میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ پیپر نہیں دینے دیں گے۔ یا فیل کر دیں گے۔ اس عناد بھرے رویہ کو سمجھنے کے لیے سمسٹرز میں ڈراپ آؤٹ یا سمسٹر فریز کروانے والے چند طلبہ سے جو سننے کو ملا وہ نہایت تکلیف دہ ہے۔

خدشہ ہے یہ تعداد بڑھتی جائےگی۔ وہ وی سی جو نہایت شد و مد سے اپنے اساتذہ کی ٹریننگ کا دعوی کر رہے تھے۔ اپنی ہی یونیورسٹی کے ماحول سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ شیر شاہ سوری کے متعلق روایت ہے کہ وہ کڑی دھوپ میں گڑھا کھود رہا تھا۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ وہ اپنے کسی ملازم کو کھدائی پر مامور کر دیتا تو کہنے لگا، "حکومت کرنا بہت مشکل کام ہے اور کدال ہاتھ میں لے کر کسی حکمران کا کام کرنا اس سے بھی زیادہ غیر معمولی اور مشکل کام ہے لیکن ان دونوں سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ غیر معمولی حالات میں توازن برقرار رکھا جائے اور ایک کام کو دوسرے کام میں مدد و معاون بنایا جائے۔ اس کی وجہ سے کسی قسم کی رکاوٹ نہ پیدا ہونے دی جائے"۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہاں حکومت کون کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمران نہیں، حکم حاکم، مرگ مفاجات ہیں۔