یہاں ایک دل دہلا دینے والا اور افسوسناک واقعہ ہے جو صرف ایک فرد یا خاندان تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کے زوال کی ایک علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ جائیداد، جو ایک طرف انسان کی محنت اور سرمایہ کاری کا ثمر ہوتی ہے، وہی دوسری طرف جب انا، حرص اور لالچ کی بھینٹ چڑھ جائے تو انسان رشتوں کے تقدس کو بھی روند دیتا ہے۔ بہنوئی اور سالے جیسے قریبی رشتے جب جائیداد کے جھگڑے میں دشمنی اختیار کر لیں، تو نہ صرف خاندان تباہ ہوتا ہے بلکہ انسانیت بھی شرمسار ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ سامنے آیا جس میں سالے نے اپنے بہنوئی کی ٹانگ صرف اس لیے کاٹ دی کہ وہ بار بار جائیداد کے معاملات میں دخل اندازی کر رہا تھا۔ یہ کوئی فلمی سین نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے ہم روزمرہ کے اخبارات میں پڑھ کر اگلے صفحے پر پلٹ جاتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں برداشت کا دامن اتنا چھوٹا ہوگیا ہے؟ کیا اب رشتوں میں احترام اور مسئلے سلجھانے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے؟
بہنوئی کا جائیداد میں بار بار دخل دینا یقیناً قابل اعتراض عمل ہو سکتا ہے، لیکن اس کا جواب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اسے جسمانی طور پر معذور کر دیا جائے۔ سالے کا یہ ردعمل صرف ذاتی غصہ نہیں، بلکہ یہ اس معاشرتی نظام کی ناکامی ہے جہاں لوگ قانون کے بجائے اپنے ہاتھوں میں انصاف لینے لگے ہیں۔ جب لوگ عدالتوں، جرگوں، بزرگوں یا بات چیت سے مسئلے حل کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کریں، تو ایسے واقعات بڑھتے ہیں۔
جائیداد کے معاملات میں دخل اندازی کی جڑیں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام، ناقص دستاویزات اور وراثتی حقوق کے غلط فہم تصور میں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر زمین یا گھر کی ملکیت مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی، یا کئی افراد ایک ہی جائیداد پر دعویٰ رکھتے ہیں۔ بہنوئی اگر بار بار جائیداد کے معاملات میں دخل دے رہا تھا، تو سالے کو قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا، مگر اس نے غصے میں آ کر ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے نہ صرف ایک انسان کو معذور کر دیا بلکہ پورے خاندان کو برباد کر دیا۔
ایسے واقعات محض ایک وقتی ردعمل نہیں ہوتے، بلکہ برسوں کی تلخی، حسد، لالچ اور بے چینی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ان دونوں افراد کے درمیان صلح صفائی کی کوئی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ کیا خاندان کے دیگر افراد نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی؟ یا سب خاموش تماشائی بنے رہے؟ معاشرتی بےحسی بھی ایسے جرائم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر وقت پر کوئی بڑوں کی مداخلت، کوئی جرگہ، یا قانونی راستہ اختیار کیا جاتا تو نوبت ٹانگ کاٹنے تک نہ آتی۔
اس واقعے سے سبق یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنے جذبات پر قابو رکھنا سیکھنا ہوگا بلکہ معاشرتی طور پر ایسے سسٹمز کو مضبوط کرنا ہوگا جہاں ذاتی لڑائیوں کو تشدد تک پہنچنے سے پہلے روکا جا سکے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ ایک اور مسئلے کو جنم دینا ہے۔ جائیدادیں بنائی جاتی ہیں، بٹتی ہیں، بک بھی جاتی ہیں، مگر رشتے اگر ایک بار ٹوٹ جائیں تو ان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ رشتوں کے احترام، صبر اور قانونی طریقوں کی طرف رجوع کرنا ہی ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔
آج ہمیں اجتماعی طور پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ جائیداد کے نام پر ہم رشتے، جسم اور جذبات کتنی بار قربان کریں گے؟ اور کیا ہم کبھی خود سے پوچھیں گے کہ وہ زمین یا پیسہ، جس کے لیے ہم اپنوں کا خون بہاتے ہیں، کیا وہ ہمارے مرنے کے بعد بھی ہمارے کام آئے گا؟ شاید نہیں۔ مگر جو زخم ہم دوسروں کو دے جاتے ہیں، وہ عمر بھر ان کا پیچھا کرتے ہیں — اور اکثر ہمیں بھی چین نہیں لینے دیتے۔