وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت گرنے سے پاکستان کو ہونے والی بچت کی رقم بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے گی۔ اب یہ بچت بلوچستان کی اہم شاہراہ کو دو رویہ کرنے پر لگائی جائے گی۔
نیک نیتی اور خیر کے لحاظ سے تو یقینا" یہ ایک احسن قدم ہے۔ کسی بھی صوبے میں رہنے والے پاکستانی کا ہر دکھ اور ہر پریشانی مشترکہ ہونی چاہیے۔ ایک طالب علم کے طور پر میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان کی ریاست اسی طرح محسوس کرتی ہے اور اس طرح ہی سوچتی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے ایسے نازک وقت میں جب دشمن بلوچستان کو تاک کر نشانے باندھ رہے ہیں اور اندر باہر دونوں اطراف سے چرکے لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دے رہے، ایسے وقت میں بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کو ترجیح دینا نہایت مثبت، تعمیری اور نظریاتی عمل ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ کرتے وقت قومی سوچ اور ملکی معاشی صورتحال کو مد نظر رکھا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔ ملکوں اور قوموں کے حوالے سے جذباتی فیصلوں کی بجائے دور رس نتائج حاصل کرنے پر نگاہ ضروری ہوا کرتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان اور کابینہ کی طرف سے پٹرول کی زائد قیمت کے حصول سے ملنے والے فائدے کو بلوچستان میں سڑکوں پر خرچ کیا جائیگا۔ اس میں سب سے پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ ہے ٹھیکیداری اور ڈویلپمینٹ کا غیرشفاف نظام۔ کہیں جتنا پیسہ بلوچستان جائے اتنا خرچ نہ کیا جاسکے۔ دوسری بات یہ ذہن میں آتی ہے کہ کیا وزیراعظم کی کابینہ میں ایک بھی وزیر مشیر ایسا نہیں جس نے یہ بتایا ہو کہ پٹرول کی قیمت میں کمی کا فائدہ صرف عام صارف کو نہیں ہوتا بلکہ ملک کی پوری اکانومی پر اس کے مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ زراعت سے لیکر ٹرانسپورٹیشن تک ایسے بیشمار شعبے ہیں جنہیں آکسیجن مل جاتی ہے۔ حکومت کو جتنے پیسے پٹرول کی قیمتیں زیادہ رکھ کے ملنے ہیں اس سے کہیں زیادہ معیشت میں آنے والی بہتری سے مل جانے ہیں۔
پٹرول کی قیمت کم کرنے کا جتنا زیادہ سیاسی فائدہ حکمران جماعت کو پہنچنا تھا شاید اتنا اب نہ پہنچے۔ ایک لحاظ سے ایک دفعہ پھر یہ بہت بڑی قربانی ہے اور نہایت قابل ستائش ہے۔ وزیراعظم کے اس فیصلے سے پنجاب میں عام سطح پر یہ سوچ بھی پیدا ہوئی ہے کہ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر شرپسند عناصر کو پورا پاکستان اپنی شریانوں سے خون نکال کر بھی پلا دے تو ادھر سے یہی آواز آئیگی کی بلوچوں کے حقوق نہیں دیے جا رہے۔
پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ براہ راست بلوچستان کو بھی ہونا تھا لیکن بلوچستان میں سڑکیں بننے سے جو کہ کسی اور مد میں بھی بن سکتی ہیں، جھنگ یا ملتان کے کسان یا ٹرانسپورٹر اور عام آدمی کو ہرگز فائدہ نہیں ہوسکتا۔
بلوچستان میں انفراسٹرکچر بنانے کی ذمہ داری صوبے سے سونا، تانبا اور دیگر قیمتی دھاتیں نکالنے والی کمپنیوں کو بھی سونپی جائے تاکہ ان کی طرف سے پوری کی گئی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری نظر آ یا پھر بلوچستان کو ملنے والی رائیلٹی کے پیسوں میں سے کچھ انفرا سٹرکچر پر بھی ضرور خرچ کیا جائے تاکہ کل کو بلوچستان کے عوام کو ثبوت ملے کہ قدرتی وسائل کے حوالے سے ریاست نے ان کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہاں صدیوں سے راج کرتے سرداران سے گزارش کی جائے کہ اب پتھر کے زمانے سے نکلیں اور عام آدمی کو انسان سمجھنے کا آغاز فرمائیں اور ایک ایسا جہان پیدا کریں جس میں انسانی سطح پر سب برابر ہوں اور کوئی کسی کو حقیر نہ سمجھے۔ بقول میاں محمد نواز شریف، ووٹ کو عزت دو۔
آخر میں ہماریبیچارے " مقبوضہ " الحمرا آرٹس کونسل کی ثقافتی تقریبات میں مسلسل برتی جانے والی نا انصافی اور اس کے بورڈ پر بیٹھے غیر مخلص اور ذاتی مفادات سے آگے نہ سوچ سکنے والے ممبران کے دبائو کی بنیاد پر حقیقی فنکاروں اور نامور حقیقی شاعروں ادیبوں کو نظر انداز کرنے کی روش جاری رکھنے پر پوری وزارت اطلاعات پنجاب کو مبارک ہو۔ مبارک باد اس لیے کہ سی ایم پنجاب مریم نواز شریف معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی، چار چار محاذوں پر نبرد آزما ہیں اور صوبے کے ہر طبقے کے لیے ان کی دہلیز پر جا کے حق ادا کرنے کے لیے کوشاں ہیں مگر وزارت اطلاعات اپنے ادبی پیراسائیٹس سے جان چھڑوانے میں مسلسل ناکام ہے۔ حالانکہ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اسی ادبی گروہ کی وجہ سے ریاستی اعزازات پر لوگوں نے بے انصافی کا باقاعدہ واویلا مچایا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
ساری دنیا کوپتہ ہے پاکستان میں ذاتی ترقی کیلئے ہر طرح کی حد پار کرنے والے نام نہاد شاعر، ادیب کون ہیں لیکن اس کے باوجود وزارت اطلاعات نے ایسے ہی افراد کو ادب کی ترقی کا کام سونپ رکھا ہے۔ بیبسی کی انتہا دیکھیں کہ ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشننگ پنجاب کا ایک لائق اور سینئر افسر اپنے دفتر میں یہ رونا روتا پایا گیا ہے کہ کیا کریں حکومت کی ترجمانی کے لیے کوئی بھی وزیر مشیر تیار نہیں ہوتا، ایسے میں ہمارے لیے حکومتی کاموں کی پروموشن اور اس کے بارے عوامی آگاہی بہت مشکل ہے۔ بات بھی درست ہے کہ ایک عظمی بخاری کس کس پراپیگنڈے اور بدزبانی کا جواب دیں۔
سیکرٹری اطلاعات اردو مشاعرے تو ذاتی ترقی والے سے بچا نہیں سکے۔ اب کم ازکم پنجابی مشاعرے ہی ان کی دست برد سے بچا لیں۔ ایک طرف آپ کا محکمہ رونا روتا ہے کہ ترجمان نہیں ملتے، دوسری طرف جن فنکاروں اور شعراء و ادباء نے ترجمان بننا ہے ان کو نمائندگی کا حق بھی نہیں دیتے تو نہ آپ نے ریاست کا حق ادا کیا نہ صوبے کا۔ نہ فرض پورا کیا اور نہ ذمہ داری۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر آپ جینوئن قلمکاروں اور فنکاروں کو ہی نظر انداز کرنے پر تلے رہیں گے تو پھر حکومت کے لیے کلمہء خیر کہنے والا کوئی کہاں سے لائیں گے۔