برہنہ پیڑوں کے پتے تلاش کرتا ہوں
گئی بہار کے خاکے تلاش کرتا ہوں
غموں کی بحر میں تنکے کا آسرا لے کر
میں حسرتوں کے کنارے تلاش کرتا ہوں
جہاں لُٹا تھا کبھی قافلہ محبت کا
اُسی نگر میں وہ رستے تلاش کرتا ہوں
مہک رہی ہے فضا آج جن کی خوشبو سے
میں کربلا کے وہ غنچے تلاش کرتا ہوں
کہاں گئی وہ محبت، کہاں گئے وہ لوگ
گئی رُتوں کے اثاثے تلاش کرتا ہوں
وہ جن کو دیکھ کے گل کو سکون ملتا تھا
بہت دنوں سے وہ چہرے تلاش کرتا ہوں