لیجئے پھر وہی چکی کی "مشقت" یعنی قلم مزدوری۔ یہ روز کا معمول ہے برسوں بلکہ کئی عشرے ہوگئے، یہی کام کرتے ہوئے۔ ہمیں اور کوئی کام بھی تو نہیں آتا۔
یہی سیکھا تھا۔ اچھا کام ہے۔ کبھی سماج میں قلم مزدوروں کی بہت عزت تھی۔ دایاں اور بایاں بازو یعنی اسلام پسند اور ترقی پسند صحافی ہوا کرتے تھے۔ دونوں طبقات میں صاحبان علم و فہم دستیاب تھے۔
آپ ان سے اختلاف کرسکتے تھے لیکن ان کی پیشہ ورانہ حیثیت اور اپنی فہم کے مطابق مطالعے سے نہیں۔ ان بزرگوں میں مکالمہ بھی ہوتا تھا اور "ملاکھڑا " بھی مگر کیا مجال کبھی کوئی زبان درازی پہ اترا ہو۔
ان ماہ و سال میں جواب بس یادوں میں محفوظ ہیں یا کتابوں میں۔ وسعت قلبی تھی۔ فتویٰ باز بھی پرچون میں دستیاب ہوتے اور بھاڑے کی حب الوطنی کے مریض بھی لیکن لوگ ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے تھے۔
کشادگی تھی، ایثار بھی۔ یہ ان برسوں کی بات ہے جب حرم و میخانہ دونوں آباد تھے۔ سر تن سے جدا کے نعرے نہیں لگتے تھے۔ کشادگی ایسی تھی کہ کراچی کے صدر کے علاقے میں کم از کم چار مقام ایسے تھے جہاں دن بھر مختلف الخیال لوگ جمع رہتے۔ ایک جہانگیر پارک میں، جہاں پبلک لائبریری تھی۔
شام میں اس پارک کے مختلف پلاٹوں میں ایک طرف سیر کرنے والے ہوتے تو یہیں ٹولیوں کی صورت میں طلباء، محنت کش اور مختلف الخیال سیاسی کارکن بھی تبادلہ خیال کرتے دیکھائی دیتے۔
جہانگیر پارک کی پبلک لائبریری میں بھی اس کے اوقات کار میں مجلس آرائی ہوتی تھی کبھی کبھی یہ بھی ہوا کہ دوپہر کے وقفے کے وقت لائبریرین نے صرف سلاخوں والا دروازہ بند کرکے تالہ لگایا اور چابیاں اندر پھینکتے ہوئے کہا "ارے گھسے پٹے انقلابیو انقلاب آنے سے پہلے جانا پڑ جائے تو چابیاں آئس کریم والے کو دے جانا"۔
آئس کریم والی دکان پارک کی گلی سے باہر نکل کر مین روڈ پر تھی۔ (لاہور میں تقریباً اس سے ملتے جلتے ذائقے کی آئس کریم ریگل چوک کے قریب کبھی ملا کرتی تھی)۔
اس دکان اور ملحقہ دکان میں پارٹیشن آپ دو منٹوں میں بھانپ سکتے تھے البتہ یہ بات کم ہی لوگوں کے علم میں تھی کہ جب دونوں دکانیں اکٹھی تھیں تو یہاں میخانہ ہوتا تھا۔
دروازہ پر بڑا سا لکھا ہوا تھا، بچوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ہم نے اس کا بدلہ اس وقت خوب چکایا جب میخانے کی جگہ آئس کریم فروخت ہونے لگی۔ آٹھ آنے کا بڑا کپ کبھی کبھی ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی عیاشی کی۔
جہانگیر پارک کی لائبریری میں جمنے والی محفلوں میں ہی عبدالباری خان، جان عالم اور عثمان بلوچ کے علاوہ ڈاکٹر اعزاز نذیر، کامریڈ محمد نواز بٹ اور دیگر طلباء و سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ان سب سے بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع ملا
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان برسوں میں کراچی سے قومی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی جماعت اسلامی جے یو پی اور پیپلز پارٹی وغیرہ کے پاس تھی مگر شہر کی سیاست میں عمومی طور پر ڈنکا ترقی پسندوں کا بجتا تھا۔ وجہ اس کا مزدور پرور شہر ہونا تھا۔
جہانگیر پارک کے اس طرف ایمپریس مارکیٹ کی مخالف سمت والی سڑک پر اگر آپ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) کی طرف چلتے تو کچھ آگے الٹی سمت کی ایک گلی میں نیپ کا دفتر تھا۔ نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی۔ بعد میں یہ این ڈی پی کا دفتر ہوا۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے ایک سڑک کے دونوں کونوں پر ایک ایک ریسٹورنٹ تھا۔ غوثیہ اور مدینہ ریسٹورنٹ۔ ایمپریس مارکیٹ سے آگے جو سڑک بند روڈ سے آرہی تھی وہاں سٹوڈنٹس بریانی والے تھے۔
بریانی یا یوں کہیں پلائو زردہ کی تین چار چھوٹی چھوٹی دکانیں ایمپریس مارکیٹ کے باہر تھیں۔ ایک چھوٹی سی پان شاپ بھی۔
صدر کے اس علاقے میں طلباء مزدوروں اور سیاسی کارکنوں کی رونق سے بھرپور ایک اور جگہ کا نام تھا ریگل بس اسٹاپ۔ اوڈین سینما کے سامنے۔ یہ تھا تو بس سٹاپ (اب بھی ہے) لیکن یہاں اس وقت اخبارات و جرائد اور کتب کے تین سٹال تھے۔
آپ کسی بھی سٹال سے اخبار، رسالہ، کتاب اٹھائیں کچھ دیر دیکھیں پھر رکھ دیجئے۔ بک سٹال کے مالکان اعتراض کرتے نہ ناراض ہوتے بلکہ وہ خوش ہوتے۔
ریگل سٹاپ کی ایک طرف اوڈین سینما تھا دوسری طرف کیفے جارج۔ یہ ریسٹورنٹ اپنی سپرٹ چائے اور پالک گوشت کی ڈش کی وجہ سے مڈل کلاس دانشوروں۔ ادیبوں، سیاسی کارکنوں کا پسندیدہ تھا۔
جیب 10روپے کی اجازت دے تو ایک بندہ یہاں کھانے کی عیاشی کا لطف لے سکتا تھا۔ تب دس روپے ایک دولت ہوا کرتی تھی۔
کیفے جارج سے اگلی گلی میں چائے کے دو ہوٹل تھے ایک ایرانی اور دوسرا پشتون ہوٹل، دونوں پر دفتری اوقات میں تو اردگرد کے دفاتر اور دکانوں میں کام کرنے والے ملازمین کا رش رہتا سپہر کے بعد ایرانی ہوٹل میں شاعر و ادیب پڑائو ڈال لیتے اور پشتون ہوٹل میں طلباء، محنت کش اور سیاسی جماعتوں کے سرگرم کارکن اور علاقائی عہدیدار۔
آپ علم و ادب سے آگا ہونا چاہتے ہیں تو ایرانی ہوٹل میں تشریف رکھیں۔ ملک کے تازہ بہ تازہ سیاسی حالات پر مختلف الخیال سیاسی کارکنوں اور طلباء مزدور رہنمائوں کے خیالات جاننا چاہتے ہیں تو پشتون ہوٹل اس کے لئے بہترین جگہ تھی۔
کیفے جارج سے آگے کچھ فاصلے پر ہوٹل برجیس والوں کا ریسٹورنٹ مڈل کلاس سے اوپر نکلتی مخلوق کا ٹھکانہ تھا البتہ کچھ فاصلے پر کافی ہائوس میں ذات پات، دھرم عقیدے اور حیثیت کو نہیں آنے اور بٹیھنے والے کی لیاقت، ذہنی بلوغت، مطالعہ کی بہت قدر تھی۔
یہاں کراچی کے ان برسوں کے معروف ادیب و شاعر اور نقادوں کے ساتھ کچھ نامور اخبار نویس اور سیاسی کارکن بھی پائے جاتے تھے۔
ہم واپس جہانگیر پارک چلتے ہیں۔ پارک کی پبلک لائبریری دن بھر اور پارک کے مختلف پلاٹوں میں سپہر کے بعد رونق لگتی۔ یہاں ایشیا سبز ہے اور ایشیاء سرخ ہے والے دونوں وافر تعداد میں موجود ہوتے تھے۔
ایک دوسرے پر جملے بھی اچھالتے۔ کامریڈ انقلاب ماسکو سے روانہ ہوا کہ نہیں؟ کوئی پوچھتا، یار اسلامی انقلاب آیا تو یہ باہر والا میخانہ بند تو نہیں کروادو گے، کیا شرٹ پتلون کی جگہ شلوار قمیص واجب ہوگی۔
اس طرح کی چھیڑچھاڑ والی درجنوں پھبتیاں کسی جاتیں۔ مگر کبھی کسی نے بغل سے فتویٰ نکال کر دوسرے کو نہیں گھونپا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک یکم مئی والے دن، یوم مزدور اور یوم شوکت اسلام منانے والے سرخے اور صالحین اپنے جلوسوں کے اختتام پر حسب معمول جہانگیر پارک میں منڈلیاں سجائے ہوئے تھے، اپنے اپنے جلوسوں کے نعروں اور تقریروں میں ایک دوسرے کو بری طرح رگیدنے والے یہاں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ارے صاحب انقلاب جب آئے گا آجائے گا دوپہر کا کھانا کھایا کہ نہیں؟ سرخے سگریٹ نوش اسلام پسندوں کو خلوص سے سگریٹ پیش کررہے ہوتے تھے۔
پھر چندہ جمع ہوتا اور ایمپریس مارکیٹ کے باہر والی پلائو کی دکانوں سے پلائو اور زردہ منگوایا جاتا۔ سب مل کر پلائو زردہ اڑاتے پارک میں لگے نلکے سے پانی پیتے، گاہے یہی ہجوم اپنی جگہ سے اٹھتا اور ریگل کے قریب والے پشتون ہوٹل کی طرف رخ کرلیتا۔ جہاں چائے کے کپ پر پھر سے سرخ انقلاب اور اسلامی انقلاب کے متوالوں میں بحث کا نیا میچ شروع ہونا ہوتا تھا۔
یہ 1970ء کی دہائی کا کراچی تھا۔ کراچی اب بھی ہے لیکن 1970ء کی دہائی والا کراچی روشنیوں کا شہر، غریب پرور، علم دوست، بندہ پرور شہر تھا۔
آپ محنت کرسکتے ہیں تو کام بہت، پڑھنا چاہتے ہیں تو چار چار شفٹوں کے تعلیمی ادارے یہ تھا کراچی
(جاری ہے)