1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. نیلم و جہلم کے سنگم پر پانچ دن

نیلم و جہلم کے سنگم پر پانچ دن

سات دن مسلسل سفر میں گزرے، گزشتہ جمعرات کی صبح گھر سے نکلا 15 فروری کو ہمارے بھیا ابو جی مرحوم کی پہلی برسی تھی۔ لاہور سے مظفر آباد تک کے سفر میں ہر لمحہ ان کی یادیں، مہربانیاں، رہنمائی اور بعض معاملات میں خاندان بھر کی بدترین مخالفت کے باوجود ان کا پوری استقامت سے ہمارا ساتھ دیتے ہوئے کہنا "باوا جی جو درست سمجھتے ہو اس پر ڈٹے رہو کوئی اور تمہارا ساتھ دے یا نہ دے میں تمہارے ساتھ ہوں"۔

وقت اور سفر حیات تمام ہوئے پچھلے برس کے پہلے مہینے میں بھیا ابو جی نے دنیا سرائے سے پڑائو اٹھالیا۔ 15 فروری کی صبح ان کی تربت پر حاضری دی۔ پھول رکھے تلاوت کی۔ مجھے یوں لگا جیسے بھیا ابو جی کہہ رہے ہوں۔۔

"آ میرے باوے، میں تمہیں بلاتا رہا تمہارے پاس روزانہ کی اداریہ نویسی سمیت درجنوں بہانے تھے نہ آنے کے لیکن اب پچھلے سال بھر میں چھ سات بار لمبی مسافت طے کرکے مظفر آباد آتے ہو"۔

بے ساختہ عرض کیا زندگی کے جھمیلے اب بھی ویسے ہی ہیں مجبوریوں اور ذمہ داریوں نے سفر در سفر کی مشقت اٹھانے کا حوصلہ عطا کیا۔ بھیا ابو جی کی تربت پر ان سے ڈھیروں باتیں کیں۔

5 دن مظفر آباد میں اور چھٹا دن تریٹ سیداں ضلع راولپنڈی میں بسر ہوا۔ برادر عزیز سید ذوالفقار نقوی ایڈووکیٹ نے حسب سابق اپر ٹنڈالی میں اپنی قیام گاہ پر شاندار عشائیہ کے ساتھ ایک مجلس مکالمہ کا انعقاد کیا۔

ان کے دوستوں محمد الطاف بٹ، ماجد اعوان ایڈووکیٹ اور دیگر عزیزوں سے مکالمہ خوب رہا۔ محمد الطاف بٹ سابق جہادی ہیں حیران کن طور پر اب خالص انسان دوست ہیں انہوں نے اپنے زمانہ جہاد اور پھر خدمت خلق کی منظم سرگرمیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنائے۔

الطاف بٹ ریاستی اسمبلی کے پچھلے الیکشن میں راجہ فاروق حیدر کے مقابل امیدوار کے طور پر میدان میں اترے تھے۔ آزاد کشمیر کے اس اتھرے اور زود رنج سیاستدان کے مقابلہ میں انتخابی میدان میں اترنا بذات خود کسی جہاد اکبر سے کم نہیں تھا۔

راجہ فاروق حیدر کبھی سردار عبدالقیوم خان کی مسلم کانفرنس میں ہوا کرتے تھے پھر مسلم لیگ (ن) کے آزاد کشمیر چیپٹر کو پیارے ہوگئے۔ صرف راجہ فاروق حیدر ہی نہیں آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی شاخوں میں جو لوگ سرگرم عمل ہیں ان میں سے اکثر کبھی نہ کبھی مسلم کانفرنس میں ہی رہے ہیں۔

جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بڑی حد تک تحریک انصاف کی پہلے و دوسرے درجہ کی قیادت بھی کبھی "کانفرنسی" ہی تھی۔ آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کے بانی عبدالباری خان مرحوم پہلے مسلم کانفرنس کے نائب صدر ہوا کرتے تھے۔

سادہ لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں قائم پاکستانی سیاسی جماعتوں کی مدر پارٹی مسلم کانفرنس ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے موجودہ صدر بیرسٹر سلطان محمود کشمیر کا مصطفی کھر ایڈیشن ہیں (شادیوں نہیں جماعتیں بدلنے کے حوالے سے) اپنے والد چودھری نور حسین مرحوم کی آزاد مسلم کانفرنس کے علاوہ وہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے سیاسی و اقتداری گھاٹ سے سیریاب ہوچکے۔

آزاد کشمیر میں ان دنوں بظاہر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی مخلوط حکومت ہے۔ شہر میں ایک طرف بلند مقام پر واقع "وائٹ ہائوس" ان سب کا کعبہء اقتدار ہے یعنی تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔

سچ کہوں تو ایک عام سیاسی کارکن سے موٹرسائیکل کو بائیکے کے طور پر چلانے والے شہری کی ٹھوس رائے یہی تھی کہ سب پتلی تماشا ہے۔ پتلیوں کی ڈوریں وائٹ ہائوس میں بیٹھے پاکستانی افسر کے ہاتھوں میں ہیں ڈوریں ہلتی ہیں پتلیاں ہلتی ناچتی اور پھدکتی ہیں۔

معاف کیجئے سید ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ کی قیام گاہ پر منعقدہ مجلس مکالمے سے بات دوسری جانب نکل گئی۔ محمد الطاف بٹ نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار بارے داستان کے چند حصوں سے آگاہ کیا۔ جہادی وضع قطع کے الطاف بٹ اس شام جب میزبان کے ڈرائنگ روم میں اترے تو اول اول مجھے یوں لگا کہ ایک شدت پسند مولوی سے دو دو ہاتھ لازم ہوں گے لیکن جب انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا تو ہمیں لگا ایک شخص سفرحیات کے تجربوں مشاہدات کہی و ان کہی کہانیوں کی دولت سے مالامال ہے۔

دوران گفتگو ان کا ایک قیمتی جملہ سماعتوں پر ہتھوڑا بن کر لگا، کہتے ہیں "شہداء کے کفنوں سے گاڑیوں میں پٹرول بھروانے والے گدھ جہاد کو نوچ نوچ کر کھاگئے"۔

راجہ فاروق حیدر کے مقابلہ میں امیدوار بننے اور پھر اطاعت امیر میں دستبردار ہونے کی کہانی بغاوت سے پسپائی تک کی داستان ہے۔ وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔ گو دستبردار کرادیئے گئے لیکن راجگان کی سیاستدان کی بنیادیں انہوں نے ہلاکر رکھ دیں۔

تاریخ، سیاست عالم و پاکستان اور آزدا کشمیر، پاکستان میں مختلف قومیتوں کے قوم پرستوں کی سیاسی فہم، مسلم تاریخ کے مختلف ادوار پر الطاف بٹ، ماجد اعوان ایڈووکیٹ اور دوسرے عزیزوں کے چبھتے ہوئے سوالات کا جواب طالب علم نے اپنی بساط مطابق عرض کیا۔

پیپلزپارٹی کے ماضی حال اور مستقبل پر بھی کھلی ڈلی گفتگر ہوئی۔ اس مجلس مکالمہ میں میزبان سید ذوالفقارحیدر نقوی ایڈووکیٹ سمیت تمام دوست موسمیاتی تبدیلیوں کے ستم سے پریشان دیکھائی دیئے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا خطرہ دوچند ہے۔

سیدی نے بتایا کہ سینکڑوں چشمے خشک ہوچکے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے پہاڑوں پر سوکھے (خشک سالی) کے خوفناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ایسی صورتحال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

خشک سالی کے خطرات کو بھانپتے ہوئے پرندے بھی ہجرت کرگئے ہیں۔ خشک سالی کے ایک دو منظر ہم نے بھی دوران سفر اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کئے۔ مظفر آباد سے اپر ٹنڈالی اور پھر کوہالہ تک سرسبز نظارے ماضی لگے اب تو خشک گھاس، بے رونق درخت چشموں کے دریا میں گرنے والی جگوں کے سوکھے پن کو دیکھ کر جی بہت گھبرایا۔

سیدی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے حسب روایت ایک شاندار مجلس مکالمہ منعقد کی اور مختلف الخیال دوستوں و عزیزوں سے گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ طالب علم ایسی مجالس سے زندگی کی نقدی وصول کرتا ہے۔

سماج کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی اگر مگر چونکہ چنانچہ سے پاک صاف سیدھی گفتگو معلومات میں اضافہ کرتی ہے۔

بھیا ابو جی کی برسی میں شرکت کے علاوہ دو دوستوں راجہ انور القمر ایڈووکیٹ اور سید شبیر حسین شاہ سے ان کے بچھڑ جانے والے پیاروں کی تعزیت واجب تھی۔ ہر دو دوستوں کے حضور حاضری اور تعزیت پیش کی۔

برادرِ عزیز ثاقب اعوان کے ذریعہ روزگار "مسٹر بکس" پر ڈیرے داری بھی خوب رہی۔ ثاقب اعوان خود بھی صاحب مطالعہ ہیں ان سے گفتگو پُرلطف ہوتی ہے وہ جب ہمارے بھیا ابو جی مرحوم کی یادوں کا دفتر کھولتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ بھیا ا بو جی کی باتیں سناتے رہیں۔

مظفر آباد میں ہی ہم نے ایک محترم دوست کی خدمت میں عرض کیا "غم نبھانے کی چیز ہیں اوڑھنے کے نہیں، غم اوڑھ لینے سے ذمہ داریوں سے پہلو تہی ہوتی ہے نبھانے سے معاملات زندگی متاثر نہیں ہوتے"۔

مظفر آباد میں پانچ دن خوب بسر ہوئے۔ کاش بھیا ابو جب حیات ہوتے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ مختلف موضوعات پر اپنی بلیغ گفتگو سے فیض پانے کا موقع دیتے مگر اس کا کیا کیجئے یہاں دائم آباد کوئی بھی نہیں رہتا۔ پیاروں کے بچھڑنے کا دکھ کچوکے لگاتا ہے۔

ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہم نے سال 1996ء میں وصیت کی تھی کہ ہماری نماز جنازہ بھیا ابو جی پڑھائیں بدقسمتی یہ کہ پچھلے برس ہم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور اب پہلی برسی کے موقع پر دعا کرسکے۔

ہمارے مجی و برادر عزیز سید ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ نے ہمیں محترم دانش ارشاد اور جاوید عنایت کی ایک ایک کتاب عنایت کی ہر دو کتابوں کا مطالعہ اب قرض ہے لیکن یہ دونوں کتابیں مسئلہ کشمیر پر کشمیری عوام کیا سوچتے اور بٹوارے کے باعث مسلط ہوئے حال پر ان کی رائے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں سواد اعظم ہونے کی دعویدار مسلم کانفرنس کو اپنے موجودہ "حال" کا تجزیہ ٹھنڈے دل سے کرنا ہوگا یہ بھی کہ اس کی سیاست کی اساس الحاق پاکستان کا نظریہ اپنی کشش اور ضرورت دونوں سے محروم ہوچکا ہے۔

(اس سفر کی مزید کچھ یادوں اور باتوں اور سیدی مہربان بخاری سے ہوئی دو نشستوں کا ذکر پھر سہی)۔