دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی ہمت نہیں ہم میں کہ ہم زمین زادوں کو پڑھائی رٹائی جانے والی تاریخ میں حملہ آوروں کو نجات دہندہ اور قاتلوں کو مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا۔ عجیب بات ہے نا۔ ہم زمین زادوں کی شناخت تو اس دھرتی کے حوالے سے ہے مگر عجب خان آفریدی، ہوش محمد شیدی، احمد خان کھرل، دیوان مول راج، ہمارے ہیرو نہیں بلک یہ اعزاز محمد بن قاسم، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی، نادر شاہ اور تیموری نسل کے ہندی حکمرانوں کو حاصل ہے۔ غیرت بریگیڈ کے جنونی اس فہرست میں پاکستان کے 4 میں سے 3 عدد فوجی آمروں کو مسیحائوں کے طور پر شمار کرتے ہیں۔
"انجمن صالحین" والوں کو اپنا مسیحا تارا مسیح محبوب ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا پھندہ اس نے ڈالا تھا۔ پھندہ ڈلوانے والے فوجی آمر ضیاء الحق کو صالحین "مرد مومن مرد حق" سمجھتے کہتے تھے اور ہیں۔ ظالم و مظلوم، قاتل و مقتول، شہید جنتی و جہنمی کی شناختوں کے حوالے سے اتنے گڑ بڑ گھٹالے ہیں کہ طالب علم حیرانی سے ٹک ٹک نیلے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فریاد کرتے ہیں۔
اللہ میاں جی! کچھ آپ ہی مدد فرما دیجئے۔ ویسے قاتل اور مقتول دونوں کو شہید قرار دینے کی روایات سے مسلمانوں کی دستیاب تاریخ اٹی پڑی ہے۔ شہادتوں کی لمبی داستانیں ہیں لیکن ہمیں تاریخ میں غوطے لگانے کی ضرورت نہیں۔
ان کتابوں کو اولاً تو کوئی پڑھتا نہیں جو پڑھتے ہیں ان میں سے 99.99 فیصد اپنی اپنی پسند کے اوراق اور سطریں پڑھتے ہیں اور پھر انہیں اپنے علم و مطالعے کا مصدر بنائے زندگی کی دوڑ میں بھاگتے پھرتے ہیں۔ پچھلے 76 برسوں میں ہمارے یہاں جو شہداء ساز فیکٹریاں لگیں ان کے مالکان نے اپنے بیٹے، بھانجے، بھتیجے تو شہادت کی سعادت سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھے البتہ دوسروں کے بچوں بھائیوں اور باپوں کو ان نعتموں کا بار اٹھانے کے لئے بیدار کیا۔
آئین، جمہوریت، جمہور اور محمد علی جناح کے بعد سب سے بڑے جمہوری رہنما ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل جنرل ضیاء الحق بھی شہید ہے اور بھٹو تو خیر ہیں ہی شہید۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت قیام امن کے لئے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے فرزندوں کو شہید سمجھتی ہے تکفیری برانڈ خوارجی ملائوں کا ٹولہ انسانیت کے قاتلوں کو شہید کا درجہ دیتا ہے۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شہادتوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ دکاندار مال بیچ رہے ہیں۔ بھائو تائو کی ضرورت نہیں۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ ان لوگوں بلکہ یوں کہیں ان قوموں کے ساتھ اسی طرح ہی ہوتا ہے جو اپنے اصل سے کٹ کر جیتی ہیں۔
یہ اصل سے کٹنا ہی تو ہے کہ زبان، تہذیب، ثقافت، تمدن اور تاریخ سب کو مذہب کے متبرک غسل خانے میں تنگ نظری کے صابن سے "پاک" کرنے کا فرض اس جنون سے ادا کیا جارہا ہے کہ ہم نہ تیتر رے نہ بٹیر یعنی تین میں نہ تیرا میں۔
ہمارا اصل المیہ یہی ہے۔ سیاست ہو کہ دینداری دونوں کاروبار بن گئے ہیں۔ سیاستدانوں کو ہر وقت ایک غدار کی اور دینداروں کو کافر و مشرک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ سمجھ لیں یہ اسی طرح کی ضرورت ہے جیسے جدید منڈی میں مال فرخت کرنے کے لئے جھلملاتے اشتہارات خریداروں کو لبھاتے ہیں۔
اشتہار ٹائر و ٹیوب کا ہو یا بسکٹ کا ایک خوبرو حسینہ تو لازمی ہے۔ بس اس کی اشتہاری مسکراہٹ کو قائم رکھنے کے لئے خریداری ہوتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند (برصغیر اب تین ملکوں میں بٹا ہوا ہے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان) کے مسلمانوں کو نجانے اول دن سے احساس کمتری کیوں ہے۔ نیا مذہب قبول کرنا کوئی برائی ہے نہ خرابی مگر یہاں تو ایسا لگتا ہے جیسے اس خطے کے مسلمانوں کی اکثریت تبدیلی مذہب پر نادم ہے اور یہ شرمندگی نسل در نسل منتقل ہورہی ہے۔
اپنی زمین، تہذیب و تمدن، ثقافت اورتاریخ کے ساتھ ہر چیز کو جوتے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھلا تبدیلی مذہب کوئی چوری ہے کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر آئیں بائیں شائیں کی جائے؟ اچھا اگر تبدیلی مذہب کوئی برائی نہیں تو پھراس سوال کا جواب ضرور تلاش کیا جانا چاہیے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت اپنے اصل (وطن اور تاریخ) سے کٹنے اور کچی روٹی پڑھے مولویوں کے پیچھے لگ کر ماضی ک ہر یاد کو دفن کرنے پر کیوں بضد ہے؟
جواب بہت سارے ہیں لیکن کالم کا دامن لمبی چوڑی علمی بحث کے لئے کم ہے۔ سو فقط اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ ملا، پادری، پجاری، گرنتھی، ربی اور اس طرح کے دوسرے مذہبی منصب دراصل میں اپنے اپنے سماجوں کے بالادستوں کے ساجھے دار ہوتے ہیں۔ اندھی تقلید اور غلامی نما اطاعت کو پروان چڑھانے والے۔ نسل در نسل یہ باور کراتے پھرتے ہیں کہ فیصلے سارے اوپر ہوتے ہیں۔ ہمیں تو بس عمل کرنا ہے چپ چاپ۔
ارے بھائی کیوں عقل انفرادی و اجتماعی رہنمائی کے لئے ہی تو ہے اس سے کام نہیں لینا تو پھر خالق کو اس تخلیق کی ضرورت کیا تھی عبادت کے لئے تو فرشتے تھے دیگر مخلوقات بھی جواس کے ہونے کی شاہد تھیں۔ سوال کرکے دیکھ لیجئے جواب آپ کے چودہ طبق روشن کردے گا۔
ویسے تعصب و تنگ نظری سے اٹے معاشروں میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سوال اور جواب ہر دو پر کٹھ ملائوں کا حق فائق ہوتا ہے۔ روشن خیالی احترام آدمیت کو کہتے ہیں لیکن ملا، پنڈت، ربی، گرنتھی، پجاری، کاہن و پادری سبھی متفق ہیں کہ روشن خیالی مادرپدر آزادی ہے۔
چار پانچ عشروں پر پھیلے تقابلی مطالعے نے ایک بات بہر طور سمجھادی ہے کہ عدم توازن بربادیوں کا ابتدائیہ ہی نہیں لکھتا بلکہ کامل برادی کو مقدر بنادیتا ہے۔ توازن، برداشت اور مفاہمت معاشروں کو طویل زندگی عطا کرتے ہیں۔ بگاڑ یا یوں کہہ لیں کہ پاپائیت کی کج ادائیاں اس لئے ہیں کہ ہم باقی تو سب کرنے اور پانے کے لئے زندگی بھر جستجو کرتے ہیں لیکن جس دین اور نظریہ پر ہوں اسے سمجھنے کی ضرورت کو وقت کا ضیاع خیال کرتے ہیں اس لئے پاپائیت کے نمائندہ ہمیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے پھرتے ہیں اور ہمارے ہی ہاتھوں سے ہمارے بھائیوں کی گردنیں مرواتے ہیں۔
معاف کیجئے گا بات اصل موضوع سے کچھ زیادہ ہی اِدھر اُدھر ہوگئی۔ چلیں اصل کی طرف پلٹتے ہیں۔
ریاست، اس کے دستور اور اس میں آباد لوگوں کی حفاظت کے لئے قربان ہونے والے فرزند قابل احترام، لائق محبت اور فرزندان وطن شمار ہوتے ہیں۔ اسلام نے ان کے لئے شہید کا اعزاز عطا فرمایا۔ فلسفہ شہادت نے ہر دور میں دلوں کو گرمایا اور آرزوئیں بیدار رکھیں۔ کوئی بھلا چند ہزار روپے کی خاطر ان اداروں میں تھوڑا ہی بھرتی ہوتا ہے۔
اب اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ کچھ کور چشم اور کج بحث لوگ "بغل میں چھری منہ میں رام رام" کے مصداق سارا فلسفہ شہادت الٹ پلٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ اور ریاست اپنی توقیر اور آزادی سے کھلواڑ کرنے والوں کو آبرو مندوں کا درجہ نہیں دیتی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں مذہب کی من پسند تاویلات کی آڑ میں شہادت کی سعادت کو متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کو شہید قرار دینے والوں سے اگر یہ کہا جائے کہ حضرت! شہادتوں کے اس سفر پر اولاد کو روانہ کیجئے تو منہ بنالیتے ہیں۔
آپ غور کرلیجئے 1980ء کی دہائی کے جہاد افغانستان میں جہاد پروروں (سیاسی رہنمائوں، دینداروں اور جرنیلوں) میں سے کسی نے اس جہاد کے لئے اپنے گھر اور خاندان سے کچھ نہیں دیا ہاں لوگوں کے بچے، بھائی اورباپ اس راہ پر لگائے اور اپنی قیادتیں مستحکم کیں۔
بہرطور حرف آخر یہ ہے کہ انسان کشی کے دھندے میں مصروف دہشت گرد ہمارے بھائی نہیں قاتل ہیں۔ ہمیں اب اس منافقت سے جان چھڑانی ہوگی کہ قاتل اور مقتول دونوں کا درجہ ایک ہے۔ معاف کیجئے گا میں تو سرمدؒ کے ساتھ ہوں اورنگزیب عالمگیر کے نہیں گردنیں کاٹنے والے جلادوں کو مرنے پر شہید نہیں کہتا۔