اکیسویں صدی میں اُردو غزل کہنے والوں کے لیے ایک سہولت اور آسانی یہ میسر ہے کہ اب کلام کی ترسیل اور ابلاغ کا کام نہایت آسان ہوگیا ہے۔ آپ غزل کہیے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیجیے۔ ایک زمانہ تھا جس شاعر غزل کہتا تھا، سنانے کی خواہش ہی رہتی تھی اور غزل پرانی ہو کر کاغذات کی قبر میں راکھ بن جاتی تھی۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب ایک شعر ہوا ہے تو وہ بھی پوسٹ کرکے داد وصول کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس ہنگام پرور دور میں غزل کہنا اور قارئین کی نسبت سامعین سے مسلسل داد وصول کرنا یقیناً مشکل ہوگیا ہے۔
اب وہی شاعر زیادہ دیر سکرین پر برقرار رہے گا جس کے ہاں کچھ نیا کہنےکی صلاحیت ہوگئی۔ یوں تو ہر شاعر جب نو آموز میدانِ سخن میں تشریف فرما ہوتا ہے تو سب پر چھا جانے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ جذبات کی ندی سوکھتی جاتی ہے اور منجمد تالاب کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ تاہم کچھ نام ایسے ضرور رہ جاتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ شاعری کے سفر میں ہولے ہولے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں جہاں دیگر اصنافِ ادب میں نئے نام سامنے آرہے ہیں وہاں اُردو غزل کہنے والوں کا ایک جہان آباد دکھائی دیتا ہے۔ سینکڑوں شعرا میں سے چند ایک شعرا کا انتخاب کرنا یقیناً کٹھن امر ہے۔ ذیل میں چند ایک شاعر کا مختصر تعارف و کلام پیش کیا جارہا ہے جو اکیسویں صدی کے اُردو غزل کے منظر نامے پر دیر تلک جمے رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
احمد ذوہیب کا تعلق کراچی سے ہے۔ احمد ذوہیب اُردو غزل کی بالکل نئی آواز ہے جس کے ہاں تازہ واردات کا چشم دید احوال ملتا ہے۔ احمد نے غزل کے فن کو مشاقی سے سیکھا ہے۔ اس کے ہاں آمد کی نسبت آورد کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے۔ غزل کہنے کا سلیقہ موجود ہے۔ قوی اُمید ہے آنے والے وقت میں احمد کی غزل جدید اُردو غزل کے معیاری لب و لہجے کو متعین کرنےمیں اہم کردار ادا کرے گی۔ احمد ذوہیب کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جو نئی نسل کی منفرد سوچ کے عکاس ہیں۔
گھٹیا لہجے میں بازاری بات کریں
شاعر بھی اب کب معیاری بات کریں
آتے جاتے لوگ مسلسل تکتے ہیں
رستے میں ہم کیسے ساری بات کریں
ان وحشت کے ہاتھ پہ بعیت کرکے ہم
اک دوجے سے کھل کر ساری بات کریں
زوہیب ؔ ہم مشقت سے گھبرائے کب تھے
مگر دل دُکھی ہے تو کارِ زیاں پر
فاحد محمود سوختہ اکیسویں صدی کی اُردو غزل کا تیزی سے اُبھرتا ہوا نام ہے جس کے موضوعات میں اگرچہ روایتی پن موجود ہے تاہم جدت اور انفرادیت کا احساس بھی چھلکتا ہے۔ فاحد کے ہاں عصرِ حاضر کے مسائل کی شاعرانہ صناعی ملتی ہے۔ فاحد نے پرانی زمینوں میں نئے مضامین باندھنےکی کوشش کی ہے۔ ان کے لب ولہجے میں نفیس طنز کی گہری پرتیں شعر کے پردے میں ملفوف ہو کر قاری کے دل میں چھید کرتی ہیں۔ فاحد کے ہاں تغزل کی نغمگی کے ساتھ درد کی لے کا سنگم بھی موجود ہے جو آنے والے وقت میں ان کی غزل کا حوالہ بنے گا۔ فاحد کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ کیجیے۔
سب کچھ اُجڑ چکا تھا، ہوا بولتی نہ تھی
اب شہرِ بے قضا میں صدا بولتی نہ تھی
آئے ہیں عرش والے مرے ہاتھ دیکھنے
کہتے ہیں آکے تری دُعا بولتی نہ تھی
مجھے سائے سے ٹھوکر لگ گئی ہے
میں دیواریں پکڑ کے چل رہا تھا
دستک جو نہیں اُس کی میسر اُسے کہنا
دیوار میں اک زخم ہے یہ در اُسے کہنا
ہر اشک تو آنکھوں سے بہایا نہیں جاتا
کچھ زخم تو رہ جاتے ہیں اندر اُسے کہنا
دل جو ہوتا ہے حزیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں
جانے والوں کو کہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں
تیری مشکل کا کوئی حل تو نہیں ہے مرے پاس
تیری مشکل پہ کہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں
علی قائم نقوی کا شمار جدید اُردو غزل کے نو آموز شعرا میں ہوتا ہے۔ علی قائم نے اُردو غزل کی روایت کے تتبع کی کوشش نہیں ہے۔ ان کے ہاں بہت کچھ کہنے کی عمدہ شعری لیاقت موجود ہے۔ شعر کہنے کا انداز بخوبی جانتے ہیں۔ زبان و بیان پر گرفت کا اندازہ ان کے تخیل کی جولانی سے کیا جاسکتا ہے۔ اکیسویں صدی کی اُردو غزل کے ربع ثانی کے اہم ناموں میں علی نقوی کا شمار کیا جانا ضروری ہے۔ علی قائم کی شعری لفظیات ان کے سخن فہمی اور مشاقی کا پتہ دیتی ہے۔ علی قائم کے ہاں عصرِحاضر کے جملہ تناظرات کا عکس واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ علی قائم نے لفظ اور معنی کے باہمی فلسفے کو اچھی طرح سمجھا ہے۔ ان کے اشعار میں بلا کی ادراکی پائی جاتی ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ دیکھیے جس میں علی قائم نقوی کا شاعرانہ انداز ان کے ہم عصر سے ممتاز اور منفرد دکھائی دیتا ہے۔
جو لوگ عزت و اکرام سے کھڑے ہوئے ہیں
یہ گر گئے تھے تیرے نام سے کھڑے ہوئے ہیں
صرف اس وجہ سے مایوس نہیں ہوتا میں
اب کسی شخص سے مانوس نہیں ہوتا میں
سپردِ صحبتِ تکمیل کر گیا ہے مجھے
یہ کون جسم میں تبدیل کر گیا ہے مجھے
اُڑائے پھرتی ہے قریہ بہ قریہ موجِ ہوا
تو کن فضاؤں میں تحلیل کر گیا ہے مجھے
اُس نے اک بار کہا کون یہاں ہےمرا
مرے بازو میری اُوقات سے بڑھ کر نکلے
قبائے صبر و ہنر داغدار کیا کرتے
تیرے اسیرتھے راہ فرار کیا کرتے
مقداد احسن عمدہ غزل کہ رہے ہیں۔ ان کی غزل میں روایت کی پیروری دکھائی دیتی ہے۔ ہلکے پھلکے شعر کہتے ہیں۔ چھوٹی بحر کا نسبتاً زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ شعر کہنے کا سلیقہ انھیں آتا ہے۔ تخیل سے زیادہ ریاضت اور آمد سے زیادہ تجربے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک گھٹن سی لیے ہوئے ہے۔ مقداد احسن کے ہاں اُردو غزل کی متنوع پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لفظ و معنی کی اہمیت اور ان کےبر محل استعمال سے واقف ہونے کی وجہ سے کم گوئی کو سخن فہمی کا معیار سمجھتے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مقدداحسن یونہی کڑے معیار کے ساتھ غزل کہتا رہا تو آنے والے وقت میں اُردو غزل کی روایت کے پھیلاؤ میں ا س کا نام نمائدگان کی حیثیت سے لیا جائے گا۔ بطور نمونہ چند اشعار دیکھیے۔
توا تنی روشنی کیسے کشید کرتا ہے
میں سوچتا ہوں ترے آس پاس کیا ہوگا
صبر کا پھل تو مل گیا ہے مجھے
لیکن اس میں ذرا مٹھاس نہیں
بھرم تھوڑا تو رکھ لیتا ہمارا
کبھی اُس سے تعلق تھا ہمارا
خراشیں دیکھ لی چہرے پہ اُس نے
پر اُس نے دل نہیں دیکھا ہمارا
کمروں میں سامان نہیں ہے اور دیواریں زخمی ہیں
کہتے ہیں اس گھر میں کوئی یاد اکیلی رہتی تھی
احمد طارق نوجوان نسل میں تیزی سے ابھرنے والا غزل گو شاعر ہے جس کی غزل میں شوخی، شرارت اور طنز کا گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ احمد طارق نے اپنی غزل کی اُٹھان روایت کے خمیر سے مستعار لی ہے۔ احمد کے شعر کہنےکی صلاحیت فطرتاً موجود ہے جسے احمد نے بہت پہلے جان لیا ہے اس لیے بعض اشعار سطحی نوعیت کے ہونے کے باوجود شاعرانہ معیار کی غمازی کرتے ہیں۔ احمد کے ہاں جس چیز کا خلا محسوس ہوتا ہے وہ ریاضت کی کمی کا ہے۔ احمد نے ذاتی تجربے کو بہت جلد عصر کا اجتماعی المیہ قرار دے ڈالا ہے جس سے اس کی شاعرانہ اُپج کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ احمد ابھی غزل کے میدان میں نووارد ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ بہت جلد ان کے لب ولہجےمیں تازگی اور جدت کا عنصر در آئے گا۔ بطورنمونہ چند اشعار دیکھیے۔
میرے غموں کا تمسخر اُڑانے والے سُن
یہ تیرا قہقہہ میری طرف ادھار رہا
وہ مر چکا تھا مرے واسطے مگر لوگو
مرے ہوؤں کو بھی اس دل کا انتظار رہا
تو کس کی یاد میں روتا ہے رات بھر احمدؔ
تیرے مکان سے بہت روشنی نکلتی ہے
تیری آنکھوں تیری زلفوں کا گلہ کیسے اُتاروں
تیرے ہونٹوں پر سفر کرتا قلم تھکتا نہیں ہے
بتا خود کو بھلا کیسے سنواروں
مجھے غم آئنوں میں دِکھ رہا ہے
اسامہ میر کے ہاں غزل کا نیا لب ولہجہ متعارف ہوا ہے۔ اسامہ نے غزل کی روایتی اُداسی کو ایک نئی صورت عطاکی ہے۔ اسامہ کے ہاں غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کا اظہار بھی ملتا ہے۔ اسامہ نے غزل کی بیرونی فضا کو اپنے اندر کے کرب سے تعمیر کیا ہے۔ اسامہ کے ہاں غزل کی ندی تازہ پانی کے بہتے دھارے کی طرح متشکل دکھائی دیتی ہے۔ اسامہ نے شعر کہنے سے قبل جملہ شعری روایت کا مطالعہ کیا ہے۔ اسامہ کی لفظیات میں ایک قسم کا اعتدال اور سنجیدگی کی ترتیب دکھائی دیتی ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ ہے جس سے غزل کا شاعرانہ احساس مجروح ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اسامہ ابھی غزل کہنے کی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے دور میں ان کی غزل نئے رنگ تخلیق کرے گی۔ بطور نمونہ چند اشعار دیکھیے۔
یہ سخن سے مرتب ہوئی لغات مری
یہ تیرے دستِ ہنر سے میرے اشارے بنے
طرح طر ح سے تیرے خدوخال دیکھے ہیں
مگر ابھی بھی نہیں تیرے ماہ پارے بنے
بہت ہنگامہ خیزی پہلی پہلی ساعتوں میں تھی
مگر اب خلوتِ مشکل میں آسانی سے رہتا ہوں
مجھے پتہ ہے کسی میں یہ شے نہیں موجود
ہر ایک شخص میں کیوں اعتبار ڈھونڈتا ہوں
میں ایسے عالمِ وحشت میں ہوں کہ تنہائی
پکارتی ہے مجھے میں پکار ڈھونڈتا ہوں
وہ میرے واسطے کیاکیا سنبھالے رکھتا ہے
میں اس کے واسطے کس کس کا دھیان رکھتا ہوں
ضیا مذکور کے ہاں اُردو غزل کو نئی اُٹھان ملتی محسوس ہوتی ہے۔ نو آموز شعرا میں کئی ایسے نام ہیں جن کی غزل کا لب و لہجہ حیران کر دیتا ہے۔ تشبیہ و استعارہ کا برمحل اور موزوں استعمال اس قدر سلیقے سے ضیا مذکور کے ہاں ملتا ہےکہ ایک لمحے کو حیرانی ہوتی ہے ہے کہ شباب سے معمور جذبے کی شدت کو کس قدر سہولت سے علامت و تمثیل کا رنگ پہنا کر مجاز کی شدت کو حقیقت کے پردے پر عیاں کر دیا گیا ہے۔ ضیا مذکور کے ہاں الفاظ کا دروبست اس بات کا متقاضی ہے کہ بہت جلد یہ نوجوان شاعر اُردو غزل کے جدید منظر نامے پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ بطورنمونہ چند اشعار دیکھیے۔
عجیب حادثہ ہوا، عجیب سانحہ ہوا
میں زندگی کی شاخ سے ہرا بھرا جدا ہوا
ہوا چلی تو اُس کی شال میری چھت پہ آگری
یہ اُس بدن کے ساتھ میرا پہلا رابطہ ہوا
کبھی کبھی تو دل کرتا ہے چلتی ریل سے کود پڑوں
پھر کہتا ہوں پاگل اب تو تھوڑا رستہ باقی ہے
یہ اُس کی محبت ہے کہ رُکتا ہے تیرے پاس
ورنہ تیری دولت کے سِوا کیا ہے تیرے پاس
دریا کے تجاوز کا بُرا ماننے والے
دریا ہی کا چھوڑا ہوا رقبہ ہے تیرے پاس
تقسیم بھی تقسیم نہیں لگتی کسی کو
دیوار اُٹھانے کا سلیقہ ہے تیرے پاس
مژدم خان کے ہاں اُردو غزل کا بانکا انداز دکھائی دیتا ہے۔ مژدم نے اُردو غزل کی نوک پلک سنوارنے کے بجائے خود کو غزل کے حوالے کر دیا ہے۔ مژدم کے موضوعات مختلف اور منفرد ہیں۔ انھوں نے غزل کو جذبات کے اظہار کے ساتھ عصرِ حاضر کے معیارات اور ترجیحات کے سانحات کا نوحہ بنانے کی شعوری کوشش کی ہے۔ مژدم کی غزل میں سادگی، سلاست اور روانی کی روایت موجود ہے۔ مژدم چھوٹی بحر میں بڑی بات کہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امیدکی جاتی ہے چند برسوں میں انور شعور، جون ایلیا کی طرح سہل ممتنع کے فروغ میں مژدم کا شمار بھی کیا جائے گا۔ چند اشعار بطور نمونہ دیکھیے۔
مجھ سے بہتر تو مل گیا ہے تمہیں
اور اللہ سے کیا گلہ ہے تمہیں
یعنی تم اتنی خوب صورت ہو
چھوٹا بچہ بھی دیکھتا ہے تمہیں
یہ دیکھنے کے لیےکیوں نہ ایک دن مر جائیں
ہمارے ساتھ اسی دن دوبارہ کیا ہوگا
بھائی کمال کر دیا دیوار کھینچ کر
پہلے یہ کام ہوتا تھا تلوار کھینچ کر
اتنا جھکا دیا ہے ترے ہجر نے مجھے
بچہ بھی سر سے لے گیا دستار کھینچ کر