1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. جنرل ر فیض حمید کا کورٹ مارشل

جنرل ر فیض حمید کا کورٹ مارشل

یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہوئی اور اب گزشتہ روز انہیں باقاعدہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید آئی ایس آئی کا سربراہ رہنے کے علاوہ پشاور اور بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے۔ ان کا نام نومبر 2022ء میں آرمی چیف کی تقرری کے لئے وزارت دفاع کی جانب سے بھجوائے گئے 6 سینئر جرنیلوں میں بھی شامل تھا۔ کورٹ مارشل کے ابتدائی مرحلہ کے آغاز پر انہیں اگست میں فوجی تحویل میں لیا گیا تھا اب اگلے مرحلے کے آغاز سے قبل تحقیقات کے نتیجے میں بنائی گئی چارج شیٹ کے مطابق ان پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے ناجائز استعمال، سرکاری وسائل کا غلط استعمال سمیت 9 مئی سمیت ملک میں انتشار و بدامنی کے متعدد واقعات اور مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت میں شامل ہونے کے الزامات ہیں۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف تحقیقات قانون کے دائرے میں رہ کر کی گئی اور قانون کے مطابق ہی انہیں تمام حقوق فراہم کئے گئے۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے ریاست کے تحفظ و مفادات اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچایا۔ نیز یہ کہ ان سے ملک میں انتشار و بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کی الگ سے تفتیش بھی کی جارہی ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کی کورٹ مارشل کے لئے گرفتاری اور اب ابتدائی مرحلہ مکمل ہونے پر جاری چارج شیٹ ہر دو پر عسکری امور کے ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی آراء اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ تیسری دنیا کے پاکستان ایسے پسماندہ ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ ملک کی ایک طاقتور ترین اور بین الاقوامی شہریت کی حامل ایجنسی کے سابق سربراہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے ابتدائی اقدامات کئے گئے۔

پاکستانی سماج جس نے 4 فوجی مارشل لائوں کے عذاب بھگتے ہوں آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے لئے ہزار ہا سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں نے مختلف ادوار میں ریاستی تشدد اور قیدوبند کا سامنا کیا ہو اور ایک طرح سے آج بھی ایک سابق حکمران سیاسی جماعت کو اسی نوعیت کی شکایات ہوں وہاں سیاسی و مذہبی جاعتیں ہی نہیں حکومتیں توڑنے بنانے پر "قدرت" رکھنے والی ایجنسی کے سابق سربراہ کا احتساب ہونا بذات خود حیران کن ہے۔ جنرل فیض حمید کے لئے احتسابی عمل (کورٹ مارشل) کا آغاز اپنی جگہ بجا طور پر درست ہے لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا وہ تن تنہا یہ سب کچھ کرتے رہے؟

قواعدوضوابط اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کیا انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کیں یا دوران ملازمت بھی وہ اس کے مرتکب ہوتے رہے؟ اس سوال کے جواب کا ابتدائی حصہ کورٹ مارشل کے دوسرے مرحلے عدالتی سماعت (فوجی عدالت) کے آغاز اور دوران سماعت سامنے آسکے گا البتہ یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ اگراس کا آغاز اکتوبر 2011ء کے منصوبہ سازوں سے کیاجاتا تو وہ تمام لوگ انصاف کے کٹہرے میں لائے جاسکتے تھے جنہوں نے "ذاتی سیاسی" جماعت بنانے کی خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے منصب کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر نہ صرف ملازمت کے ضابطوں اور حلف کی خلاف ورزی کی بلکہ ان کے ایڈونچرز کی بدولت پاکستان اور اہل پاکستان کی قسمت میں بربادیاں لکھی ہی نہیں گئیں بلکہ دونوں کو ان کا اب بھی سامناکرنا پڑرہا ہے۔

جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے عسکری امور کے ماہرین، سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار اور مختلف الخیال سیاستدان جو بھی کہیں اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ ان (فیض حمید) کی وجہ سے صرف مملکت اور لوگوں کو ہی نہیں خود ان کے اپنے سابق ادارے کو بھی شدید مسائل کر سامناکرنا پڑرہا ہے۔ ان کے خلاف جاری چارج شیٹ کا نکتہ وار تجزیہ بعض ایسے معاملات کو طشت ازبام کرتا ہے جن کا عام طور پر سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

اس ضمن میں دو تین باتیں بہرطور اہم اور قابل ذکر ہیں ان پر عمومی طور پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مینج کرنے اوراس سے قبل پی پی پی، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سیاسی خانوادوں کے سیاسی عمل میں فعال درجنوں افراد کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروانے کے لئے ضلع کی سطح تک کے اپنے ماتحتوں کو استعمال کیا محض یہی نہیں بلکہ اگر کسی نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس کے خاندان کی زندگی اجیرن کردینے کی دھمکیاں دی گئیں۔

پی ٹی آئی کے دور میں تو وزیراعظم خود اعتراف کرتے دیکھائی دیئے کہ ہمیں پارلیمان کا کورم پورا کرنے کے لئے ایجنسیوں سے کہنا پڑتا ہے اسی طرح 2022ء میں سابق وزیراعظم نے جو لانگ مارچ کیا اس لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کا مرکزی کردار انہیں قرار دیا جاتا رہا۔ یہ رائے رکھنے والوں کا موقف تھا کہ وہ ذاتی طور پر آرمی چیف کا منصب حاصل کرنے کے خواہاں تھے اس لئے انہوں نے اپنی ہم خیال سیاسی جماعت کے لانگ مارچ اور سٹریٹ پاورکو بروئے کار لاکر اس وقت کی حکومت کو دبائو میں لانے کے ہتھکنڈے آزمائے۔

ان پر جو تیسرا الزام دوران ملازمت زبان زد عام رہا وہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات کے لئے ماحول بنانا تھا تاکہ حکومت اور ریاست مذاکرات کی راہ اپنائیں اور آئندہ الیکشن (2024ء کے انتخابات) میں ان سابق جنگجوئوں کے ذریعے ایک خاص سیاسی جماعت کے حق میں ماحول بنانے کے لئے دوسری جماعتوں کے لئے حالات ناسازگار بنادیئے جائیں۔

ان تین الزامات کے علاوہ بھی ان پر چند سنگین الزامات ہیں جن میں ایک ہائوسنگ سوسائٹی کی طاقت کے زور پر ملکیت تبدیل کرانے، بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو اپنی ایجنسی کے سیف ہائوسز میں رکھ کر ان سے رقم وصول کرنے، 9 مئی کی اس ناکام بغاوت کے تانے بانے بُننے کا بھی الزام ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں افسوسناک واقعات پیش آئے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ ان پر عائد کی گئی چارج شیٹ کے تحت جب ملٹری کورٹ میں کورٹ مارشلء کی کارروائی شروع ہوتی ہے تو کیا یہ معاملات اس طور زیربحث آئیں گے کہ ان کی جواب طلبی ہوسکے۔ اس امر پر دو آراء بہرطور نہیں کہ فوجی قوانین کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سال تک وہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر انہوں نے اپنے ہی ریٹائر ماتحتوں کے ذریعہ معلومات اکٹھی کرنے اور انہیں ایک خاص سیاسی جماعتوں کے حق میں استعمال کرنے کے لئے متوازی نظام بنارکھا تھا اس متوازی نظام سے فیض اٹھانے والوں کا تعلق اسی سیاسی جماعت سے ہے جسے کم و بیش آئی ایس آئی کے چار سابق سربراہان (فیض حمید سمیت) "خالص اپنی" جماعت قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں کا سول نظام اور قانون اتنے طاقتور ہرگز نہیں کہ وہ کسی ریٹائر جرنیل کا محاسبہ کرپائیں۔ ایک سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر مسلم لیگ ن کی سیاسی حکومت اور نظام کو جو قیمت چکانا پڑی اس کا بقایا ملک اور عوام آج تک ادا کررہے ہیں۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے آغاز کے ساتھ ہی ان کے بنائے متوازی نظام کے ہرکاروں اور مستفید ہونے والے سیاسی رہنمائوں سمیت دوسرے سہولت کاروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔