سید یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم نے متفقہ طور پر سینیٹ چیئرمین کے لئے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ اُدھر وزیراعظم سمیت ان کے رفقا کی گفتگو مستقبل کا نقشہ سمجھانے کے لئے کافی ہے۔
پچھلے چند دنوں سے وزیراعظم کے خطاب (بشمول قوم سے خطاب) کے ایک ایک لفظ پر غور کیجئے کچھ نہ سمجھنے کے باوجود آپ بہت کچھ سمجھ جائیں گے۔ غالباً اسی لئے وزیرداخلہ شیخ رشید کو کہنا پڑا کہ سینیٹ چیئرمین کے عہدہ کے لئے صادق سنجرانی حکمران اتحاد کے علاوہ "ریاست" کے بھی امیدوار ہیں۔
سپاٹ چہرے کے ساتھ سیاست میں ملوث نہ ہونے کا اعلان کرنے والوں کے تردیدی بیان کا انتظار کرتے 52گھنٹے گزرگئے لیکن تردید نہیں آئی۔ کیا اس عدم تردید سے شاہد خاقان عباسی کے بیان اور بلاول بھٹو کا ایک ادارے کے سربراہ کو ٹیلیفون کرنا (گزشتہ کالم میں تفصیل عرض کرچکا) درست نہیں لگتا؟
وزیراعظم کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو ایماندار نہیں سمجھتے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد کی بات چھوڑیں سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے مرحلہ میں یہ "ایمانداری" کہاں جا سوئی تھی۔ گزشتہ روز وزیراعظم ایک بار پھر الیکشن کمیشن اورسابق وزیراعظم نومنتخب سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی پر خوب گرجے برسے۔ ان کا گرجنا برسنا اور برہمی میں چھپی تلخی بلکہ نفرت سمجھ میں آتی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست کا رزق ہی دوسروں سے نفرت ہے۔ آپ عملی زندگی اور سوشل میڈیا پر انصافی مجاہدین کو دیکھ پڑھ لیجئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے بھگوڑے تو آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اپنی بدزبانیوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے یہ جو کہتے ہیں اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں الیکشن کمیشن کا کردار متنازعہ ہے، وجہ۔ ان (حکومت) کی درخواستوں پر عمل نہیں ہوا۔ یعنی دستور سے ماورا طریقہ کار اپنالیتا الیکشن کمیشن تو وزیراعظم اور ان کی جماعت کے نزدیک اس سے بہتر ادارہ ہی ملک میں اور کوئی نہ ہوتا۔
انتخابی اصلاحات وہ کریں گے کیسے۔ ہر شخص سے انہیں نفرت ہے جس کا ذکر کرتے ہیں انتہائی حقارت سے۔ جس جس نے ماضی میں ان کے لئے "کوئی بھی کام" کیا وہ اب ان کے زہریلے جملوں کی زد میں رہتا ہے۔
ایک مثال یاد آئی تھی خیر رہنے دیں ان کے ترجمانوں کا لشکر چوبیس گھنٹے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف رہتا ہے۔ خود ان کی خواہش "اسلامی صدارتی نظام" کی ہے۔ آج کل یہ خواہش خوب انگڑیاں لے رہی ہیں ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ راتوں رات مرضی کا نظام اور انتظام کرلیں۔ پارلیمانی دستور ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا اور کہیں سے انہیں دو تہائی اکثریت مل جاتی تو ہم اس وقت جنرل ضیاء الحق ثانی کے دور میں جی رہے ہوتے۔
سیاسی اختلافات ہوتے ہیں یہ کوئی کفر و ارتداد ہرگز نہیں لیکن وزیراعظم کی سوچ یہی ہے کہ وہ اکیلے محب وطن، ایماندار، اصول پرست ہیں۔ مختلف نظاموں کی برکات سے گاہے گاہے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ آجکل وہ مُصر ہیں کہ ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست ہی سارے مسائل کا حل ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کا تاریخ سے "ہاتھ تنگ" ہوتا ہے۔گزشتہ روز انہوں (وزیراعظم) نے دعویٰ کیا کہ ہمارے سینیٹروں کو آفرز آنا شروع ہوگئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومتی اتحاد کے پاس اس وقت 48 (کل تک 47ارکان تھے بلوچستان سے جیتنے والے "آزاد سینیٹر" عبدالقادر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں) ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 53 ارکان 5ووٹوں کی برتری کو بلڈوز کرنے میں پوری حکومتی مشینری اور "معاونین" سرگرم عمل ہیں اور دعویدار بھی کہ چیئرمین ہمارا ہی جیتے گا، کیسے؟
جیسے عدم اعتماد کی تحریک میں جیتا تھا۔ اور اصول پسندی کے پھریرے لہرائے گئے تھے۔ وزیراعظم کو ڈسکہ ضمنی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بھی اعتراض ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو حکومت نے ان انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلے کیوں کئے جن کے بارے میں الیکشن کمیشن کے حکم میں لکھا ہے کہ وہ فرائض سے غفلت برتنے کے ساتھ نااہلی کے مرتکب ہوئے اور دھاندلی کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ الیکشن کمیشن غلط ہے تو مکمل غلط، یہ نہیں ہوسکتا کہ نصف غلط اور نصف درست ہو۔
ایک زمانہ تھا جب وزیراعظم ایسے بیانات پر نون لیگ کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ وہ اداروں کو متنازعہ بنارہی ہے یا یہ کہ "اس" ادارے کا سربراہ آپ نے مقرر کیا ہے۔ اب کیا انہیں یاد نہیں کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی تشکیل ان کی حکومت نے حال ہی میں کی ہے۔ کڑوا سچ یہ ہےے کہ موجودہ حکومت ہو یا ماضی کی حکومتیں، سبھی اداروں کو اپنے بوٹ کا تسمہ سمجھتی ہیں۔ یہی رویہ غلط ہے۔حکومت کوئی بھی ہو اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ افسوس کہ ہر حکمران یہی سمجھتا ہے کہ میرا فرمایا ہی آئین اور قانون ہے یہی فساد کی بنیادی وجہ ہے۔