1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. محترمہ بے نظیر بھٹو بنام نوازشریف

محترمہ بے نظیر بھٹو بنام نوازشریف

محترم و مکرم میاں محمد نوازشریف صاحب،

السلام علیکم!

آپ کا خط موصول ہوا، یادآوری کا شکریہ۔

بلاشبہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات ابتر ہیں ان حالات میں سیاسی قوتوں کو مل جل کر کوشش کرنی چاہیے کہ عوام کو اس جبر و استبداد سے نجات ملے اور وہ ان مسائل سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکیں جو ان کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔

آپ نے حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے قیام، اب تک کی جدوجہد کے ساتھ پیپلزپارٹی کے حوالے سے اپنی شکایات بھی لکھیں۔

مناسب یہی تھا کہ اس ضمن میں آپ بلاول اور آصف علی زرداری سے بات کرتے۔

بہرطور اب چونکہ آپ نے اپنے خط میں ماضی کی کچھ باتوں کا حوالہ بھی دیا ہے تو مجھے یہ کہنے دیجئے۔ ہم اے آرڈی میں تمام تر اختلافات اور بدترین کردار کشی کو بھلاکر بیٹھے تھے۔

میری اب بھی یہی رائے ہے کہ ماضی کو لے کر طعنے بازی سے زیادہ بہتر ہے کہ جس جماعت کا جس طور سیاست کرنے کو دل کرتا ہے خوشی سے کرے لیکن اگر اتحادی سیاست کرنی ہے تو باہمی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔

پیپلزپارٹی نے این آر او کا قومی اسمبلی یا سپریم کورٹ میں بالکل دفاع نہیں کیا تھا اس سے فائدہ کس کس نے اٹھایا آپ بخوبی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت افتخار چودھری کے ساتھ راجہ ظفرالحق کے گھر پر آپ کی ملاقات میں کیا طے ہوا تھا۔ یاد کروادوں کہ اس ملاقات میں چودھری نثار، شہباز شریف اور عرفان صدیقی آپ کے ہمراہ تھے۔

ہم نے تو ان ملاقاتوں پر بھی آپ سے کبھی شکوہ نہیں کیا جو پیپلزپارٹی کے دور میں آرمی چیف سے کی جاتی رہیں۔

جنرل ضیاء الحق نے میرے خاندان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن جب میں پہلی بار وزیراعظم بنی تو میں نے اپنے ساتھیوں کے مشورے کے باوجود ان کے خاندان سے نامناسب برتاو نہیں کیا بلکہ مری کے وزیراعظم ہائوس میں جہانگیر بدر میرے پاس جو ویڈیو کیسٹ لائے تھے وہ بھی آتش دان میں پھینک کر جلادی کیونکہ ایک بیٹی کسی کی بہو بیٹی کی بدنامی میں حصہ نہیں ڈال سکتی۔

محترم میاں صاحب!

میری شہادت کے بعد پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی۔ ابتداء میں آپ نے تعاون کیا پھر سیاسی ضرورتوں کے پیش نظر راستے الگ کرلئے۔ آپ کے برادر خورد اور دوسرے ساتھی میرے شوہر اور خاندان بارے جو زبان استعمال کرتے رہے کیا کبھی پیپلزپارٹی نے ویسی جوابی زبان برتی؟

آپ نے میرے شوہر سے تشدد کرکے طلاق نامے پر دستخط کروانے کے جنون کا شکار آئی جی پولیس رانا مقبول پر کیا کیا عنایات نہیں کیں مگر ہم نے شکوہ نہیں کیا۔

ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کا جذبہ نہ ہوتا تو 1988ء سے 1999ء کے درمیان میرے اور میری والدہ محترمہ کے بارے میں جو زبان برتی جاتی رہی اس کے بعد تعاون و مفاہمت کی گنجائش نہیں تھی مگر میں سمجھتی ہوں کہ غلطیاں انسان کرتے ہیں

آپکو یاد ہوگا کہ جدہ کے سرور پیلس میں جب میں اپنے شوہر کے ساتھ ملاقات کے لئے آئی تھی تو آپ نے کہا تھا "1988ء کے انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا وہ جنرل حمید گل کے بنوائے گئے میڈیا سیل نے کیا جس پر میں نے کہا تھا کہ اگر ایسا ہے تو علی پارک لاہور کے جلسہ میں بدزبانی کرنے والے حافظ سلمان بٹ کو آپ نے عشائیہ کیوں دیا۔

یاد کیجئے میں نے اس عشائیہ کے دوران آپ کے سلمان بٹ کے لئے تحسینی کلمات بھی آپ کوبتائے تھے۔ آپ نے جواب میں کہا کہ یہ باتیں مجھ سے اس ادارے نے منسوب کی ہیں جس نے آپ کے خلاف مقدمات بنانے کے لئے میری حکومتوں کو مجبور کیاتھا۔

محترم میاں صاحب!

میرے اور میرے خاندان کے گلے شکوے اسی دن ختم ہوگئے تھے جب آپ نے مجھے بہن کا درجہ دیتے ہوئے چادر اوڑھائی تھی۔ سیاست میں اختلافات ہوتے ہیں ذاتی دشمنیاں نہیں میں دشمنی پالتی تو جنرل ضیاء الحق اور ان جرنیلوں کے خاندان ڈھونڈے سے بھی نہ ملتے جنہوں نے میرے خاندان اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر مظالم ڈھائے، کردار کشی کی، پھانسیاں دیں اور کوڑے مروائے۔

اب بھی میرا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنی تحریک کے حوالے سے جن مرحلہ وار اقدامات کی منظوری دی تھی ان پر عمل ضروری ہے۔

آپ سے بہتر کون جانتاہے کہ ہمیں زبانیں کھنچوانے کا تلخ تجربہ ہے۔ آصف زرداری کی زبان بھی پلاس سے کھینچی گئی تھی۔

محترم میاں صاحب!

پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کو اس کی اصل حدود میں رکھنے (واپس بھیجنے) کے لئے معرض وجود میں آیا تھا میں سمجھتی ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کوکم کئے بغیر جتنی مرضی حکومتیں گروالی جائیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

آصف زرداری درست کہتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفوں کو آخری آپشن کے طورپر استعمال کریں ایسا نہ ہو کہ یہ آپشن وقت سے پہلے استعمال کرلینے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائیں۔

میں آپ کی توجہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں کی گئی آپ کی اپنی تقریر کی طرف دلانا چاہتی تھیں پھر یہ سوچ کر ارادہ ترک کردیا کہ بسا اوقات غلط معلومات کی فراہمی اور وطن سے دوری مل کر انسان سے وہ الفاظ ادا کروادیتے ہیں جن کی سنگینی کا خود اسے انداز نہیں ہوتا۔

محترم میاں صاحب!

بلاول میرا تربیت یافتہ ہے اور مجھے اپنی تربیت پر فخر ہے وہ مخالفین کے سخت جملوں کے جواب میں بردباری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میں یہ بھی عرض کرتی چلوں کہ مشترکہ سیاسی جدوجہد میں مساوی کردار ہوتا ہے سیاسی جماعتوں کا کوئی جماعت دوسری جماعت کی ذیلی تنظیم نہیں بن سکتی۔

پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے اولین اعلامیہ کی پابند ہے۔

سیاسی حکمت عملی سے اسٹیبلشمنٹ کو عوام کے حق حکمرانی کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

غلط فیصلہ اور جذباتیت تحریک اورایجنڈے کو نقصان پہنچائیں گے۔ براہ کرم معروضی حالات سمیت دیگر امور پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے تاکہ کل کو پشیمانی نہ اٹھانی پڑے۔

محترم میاں صاحب!

میں یہ خط لکھ رہی تھی کہ آپ کی پارٹی کے پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کا جیو ٹی وی پر انٹرویو نشر ہورہا تھا اس میں انہوں نے میرے شوہر سے وہ بات منسوب کی جو آصف زرداری نے نہیں کی تھی۔ آصف نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ کہا تھا کہ چونکہ میرے پاس پنجاب کا ڈومیسائل نہیں ہے اس لئے اسٹیبلشمنٹ سے لڑنا آسان نہیں اس بات کا پس منظر چھوٹے صوبوں سے اچھوتوں والا سلوک ہے۔

کچھ باتیں اور بھی لکھنا چاہتی تھی مگر مجھے اپنے بابا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پاس کھانے پر جاناہے اس لئے پھر کسی خط میں عرض کروں گی۔

والسلام

خیر اندیش

بے نظیر بھٹو