ماہ اگست کے حساب میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 1روپے 95پیسے کا اضافہ قبول کیجئے۔ یہ ہفتہ بھر میں بجلی کی قیمتوں میں دوسرا اضافہ ہے۔ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے "اچھے" دنوں کے لئے قربانی دیتے رہنا زندہ قوموں (اگر زندہ ہوں) کا فرض ہے۔ اُدھر آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں فی یونٹ قیمت 1روپے 40پیسے بڑھائی جائے۔
چند دن اُدھر ان سطور میں اس حوالے سے عرض کیا تھا وزارت پانی و بجلی کے ایک ذمہ دار نے کہا "آپ نے غلط بیانی سے کام لیا" عرض کیا بس دو دن انتظار کیجئے۔ کل شام انہیں پیغام بھیجا حضور وزارت خزانہ نے تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف بجلی سمیت مختلف چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ چاہتا ہے اور سبسڈی کا خاتمہ بھی۔ حکومت کے مذاکرات جاری ہیں ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، ویسے لکھ لیجئے کہ فیصلہ وہی ہوگا جو آئی ایم ایف والے چاہتے ہیں مزید اضافے کے لئے آئی ایم ایف کی کمزور معیشتوں والے ممالک کے حوالے سے سامنے آئی ایک حالیہ رپورٹ پڑھ لیجئے۔
فی الوقت ایک صورت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا ادارہ، ادارہ شماریات تسلیم کررہا ہے کہ پچھلے ہفتے کے دوران 1.21فیصد مہنگائی بڑھنے سے مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 12.94فیصد ہوگئی ہے۔ تحریر نویس کی رائے میں یہ اعدادوشمار لوگوں کو گھبرانے سے بچانے کے لئے ہیں ورنہ پچھلے ہفتے کے دوران مہنگائی میں 3فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی اضافہ 15فیصد سے تجاوز کررہا ہے۔
گزرے ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات، بجلی، چکن، چاول، چینی اور آٹے سمیت 22اشیاء مزید مہنگی ہوئیں۔ آج ایک اور رپورٹ سامنے آئی ہے۔ آئی ایم ایف کا تقاضا ہے کہ ہر طرح کی سبسڈی ختم کی جائے، نقصان میں چلنے والی سرکاری کمپنیوں کی نیلامی کا ٹائم فریم دیا جائے۔ یہ بھی کہ اب بجلی کے ساتھ گیس کے نرخ مزید بڑھانے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔
آپ اگر ابتدائی سطور سے پریشان ہیں تو جی بہلانے کے لئے بس فواد چودھری کے اس بیان سے لطف لیجئے کہ "معاشی مشکلات زرداری اور نوازشریف کا تحفہ ہیں "۔ 12ارب ڈالر کا قرضہ اور سود نہ دینا ہوتا تو پٹرولیم و بجلی پر سبسڈی دیتے۔ کیا شاندار لوگ ہیں۔
کل کی باتیں پچھلی وفاداریاں بھولتے ہوئے وقت نہیں لگاتے۔ فواد چودھری جی پیپلزپارٹی کے دور میں بھی اسی جذبہ سے مسائل کا ذمہ دار پچھلی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کو ٹھہراتے تھے۔ خیر چھوڑیں ہمیں یا آپ کو ان بیانات اور تبدیل شدہ وفاداریوں کے قصے بیان کرنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔
خواہش تھی کہ افغان ایشو کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کے لئے اسلام آباد کا دو روزہ دور کرنے والی نائب امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمن کی مصروفیات اور ملاقاتوں پر کچھ عرض کروں لیکن جیسے ہی قبلہ گاہی مخدوم شاہ محمود قریشی کے اس ارشاد پر نگاہ پڑی کہ "صدر جوبائیڈن جلد ہی عمران خان کو فون کرسکتے ہیں " تو ارادہ ملتوی کردیا۔
یہ کام خالص حب الوطنی کے جذبہ سے کیا ہے۔ اب دیکھیں نا یہاں ہم ان سطور میں امریکہ اور اس کے پالیسی سازوں کی کلاس لے رہے ہوتے اُدھر جوبائیڈن ہمارے وزیراعظم کو فون کرلیتا تو مشکل ہوجاتی اس نے لازماً ہمارے کالم کا وزیراعظم عمران خان سے شکوہ کرنا تھا اس لئے سوچا یہی ہے کہ مقامی موضوعات پر جو کے وافر مقدار میں دستیاب ہیں بات کر لیتے ہیں، آپ چاہیں تو وینڈی شرمن کے اس ارشاد سے حظ اٹھالیجئے کہ "مضبوط خوشحال اور جمہوری پاکستان دنیا کے لئے اہم ہے"۔
ویسے یہ سفارتکاری بھی کیا چیز ہے وینڈی شرمن نے دہلی میں پاکستان کے لئے جو لب و لہجہ اختیار کیا تھا وہ اسلام آباد میں یکسر مختلف تھا۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیجئے، فی الوقت اسلم محمود نامی ایک محترم قاری کا دوسطری شکوہ "وہ کہتے ہیں ایک تو آپ ہمیشہ حکومت سے شاکی ہی رہتے ہیں کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کالم نگاروں کے نوابزادہ نصراللہ خان ہیں اس لئے ہر حکومت کی مخالفت ہی کرتے ہیں۔ کچھ محکموں سے بھی آپ نالاں ہیں پتہ نہیں کیوں تھوڑے تھوڑے مذہب بیزار بھی ہیں۔ اسلم محمود صاحب نے ایک سوال بھی پوچھا، سوال یہ ہے کہ آپ 14اگست 1947ء کی آزادی کو بٹوارہ کیوں لکھتے ہیں اسے آزادی کیوں نہیں لکھتۓ"۔
عرض یہ ہے کہ کسی بھی حکومت سے ماسوائے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے ہماری ذاتی دشمنی ہرگز نہیں۔ ہم تو اپنی محبوب جماعتوں پی پی پی اور اے این پی کے اقتدار کے دنوں میں بھی اسی طرح ہی معروضات پیش کرتے۔ مسائل کو اجاگر کرتے اور اپنی فہم کے مطابق رائے عرض کرتے تھے۔ حکومت وہ کسی بھی ہو، کی تعریف کرنے اور اسے نجات دہندہ بناکر پیش کرنے والے بہت ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسے خطے میں آباد ہیں جہاں حملہ آوروں کو نجات دہندہ اور جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو مسیحا بناکر پیش کرنے والے "فنکاروں " کی کمی نہیں۔
تحریر نویس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے تصویر کا دوسرا رخ پڑھنے والوں اور ارباب اختیار کے سامنے رکھنا۔ مشکل اس لئے کہ اس میں دادوتحسین تو بہت ہے مگر مشکلات زندگی کو عذاب بنادیتی ہیں۔ ہم ایسے صحافت کے طلباء جب اس کوچے میں آئے تھے تو اس وقت نظریات کی اہمیت ہوتی تھی، لوگ دائیں بائیں بازوں کی تحریکوں کو اپنے نظریات کی بنیاد پر سپورٹ کرتے تھے یہ "آل رائٹ " کا موسم جنرل ضیاء الحق کے دور میں اترا اور پھر خوب پھلا پھولا۔
زیادہ بہتر یہ ہوتاہے کہ کسی حکومت کو اس کے دور اقتدار و اختیار میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھایا جائے۔ تبدیلی کے نام پر لوگوں کی جو درگت بنی ہے اس سے آنکھیں بند کرلینے سے کیا ہوگا۔ نواب زادہ نصراللہ خان بہت قابل احترام تھے اور ہیں بھی ہم کم از کم ان جیسے نہیں۔ ہر قیمت صورت اور وقت و حالات میں جمہوریت کے حامی ہیں۔ ہم جمہوریت میں مارشل لاء اور مارشل لاء میں جمہوریت تلاش نہیں کرتے۔ کسی محکمہ سے ہمارا لین دین کا تنازع بھی بالکل نہیں۔ بادشاہ گروں پر تنقید تو ہوگی۔
جب آپ اپنے اصل فرائض چھوڑ کر داخلہ، خارجہ، خزانہ کے امور سنبھال لیں اور سیاسی امور کے ساتھ دیگر معاملات پر نہ صرف اثرانداز ہوں بلکہ فیصلے مسلط کرنے لگیں تو تنقید ہوتی ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تنقید میں دلیل ہے یا محض مخالفت برائے مخالفت۔ رہا سوال 14اگست 1947ء کی آزادی کو بٹوارہ لکھنے کا تو اس حوالے سے صاف صاف بات یہ ہے کہ آزادی ملتی ہے تو آزاد لوگ شرف انسانی کی معراج کو پانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ بٹوارہ ہوتا ہے تو بٹوارے کی نفرتیں پالتے پوستے سنبھالتے نسلیں کھیت ہوتی ہیں۔
خود ہی انصاف کیجئے کہ آزادی ملی تھی یا بٹوارہ ہوا تھا۔ آزادی ملی ہوتی تو پھر یہ ملک ایک حقیقی قومی جمہوری مملکت کے طور پر اپنی شہرت رکھتا۔ عوام اقتدار سازی کے حق سے محروم نہ ہوتے۔ ریاست تجربات نہ کرتی بلکہ عوام کی رائے مقدم سمجھی جاتی۔ یہاں پچھلے 74سالوں سے سب کچھ آزادی کے برعکس ہوا۔ صدیوں نہیں ہزاریوں کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کا مذاق اڑایا گیا۔
قومی شناختوں سے انکار ہوا۔ مقامی زبانوں پر طنز۔ ان حالات میں کم از کم اس تحریر نویس میں حوصلہ نہیں ہے کہ بٹوارے کو آزادی لکھے۔ آزادی تو فکروشعور کو پروان چڑھاتی ہے نئے جہاں تلاش کرنے بسانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ بٹوارہ صرف نفرتوں کے نت نئے دھندوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ چار اور محبتوں کا زم زم بہہ رہا ہے یا نفرتوں کا سیلاب ہے؟