کالج میں برہان کی سادھنا سے گہری دوستی تھی۔ ٹیچرز اور طلبا اس دوستی کو کوئی اور رنگ دیتے تھے، پر میں نے کوئی اہمیت نہ دی کیوں کہ تعلیمی اداروں میں اتنے سال گزارنے کے بعد تجربے سے یہ ہی جانا تھا کہ کالج کہ بعد نئی درس گاہیں، پھر نوکری اور پھر نئی دوستیاں نئے تعلقات اور پھر تم کہاں ہم کہاں۔ کچی عمر کی دوستیاں بھی کچی ہوتی ہیں۔
کوئی آٹھ سال بعد ہم نے گھر شفٹ کیا تو ایک دن اپارٹمنٹ کے گیٹ پر برھان مل گیا۔ اپنے پرانے طالب علم کو دیکھ کرخوشی ہوئی، لاکھ ذہن پر زور دینے کے باوجود اس کا نام یاد نہ آیا۔ لیکن معلوم نہیں کیوں اس کے حوالے سے سادھنا کا نام پٹ سے دماغ میں کودا۔
"سادھنا"؟ میں نے سوالیہ لہجے میں استفسار کیا۔
اس کے چہرے پر لمحے بھر کو اذیت نظر آئی۔ زرا جھک کر بولا۔
"جی میں برہان"۔
میں نے اس کے کلاس میٹس کے بارے میں پوچھنے کے بعد سادھنا کے باے میں جاننے کی کوشش کی۔
تو اس نے ٹال دیا بولا "مس آپ کو دیر ہو رہی ہوگی"۔
میرے بیٹے کو سیکنڈ ائیر میں سائنس ٹیچر کی مدد کی ضرورت تھی۔ ایک دن مجھے اپارٹمنٹ میں ہی وہ نظر آگیا۔ میں نے اسے اپنے بیٹے کو ٹیوشن پڑھانے کی درخواست کی جو اس نے نہایت سعادت مندی سے قبول کر لی۔
وہ ہفتے میں دو دن ایک گھنٹے کے لیے میرے بیٹے کو پڑھانے آجاتا۔
ایک دن دونوں بیٹے کالج کی طرف سے پکنک پر گئے ہوئے تھے۔ برہان آیا تو اسے دروازے سے لوٹانا مناسب معلوم نہ ہوا۔
اس کے سامنے چائے کا کپ رکھتے ہوئے اسے بتایا کہ بچے پکنک پر گئے ہیں۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہو ئے سادھنا کا نام ایک پھر میری زبان پر آگیا۔
"مس! وہ مر گئی"۔ اس نے ایسے کہا جیسے وہ اب اس کا ذکر نہ سننا چاہ رہا ہو۔
وہ میری شاگرد رہ چکی تھی، میرے بچوں جیسی تھی۔ میرے لیے یہ روح فرسا خبر تھی۔
"کیسے؟ کب"؟
برہان نے بتایا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خاطر مسلمان بھی ہوگئی تھی۔
پر ابا نہیں مانے، ان کا کہنا تھا کہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی وہ بھی ہندو، جسے دین کے بارے میں کچھ علم نہیں، کل کو ماں باپ کی محبت نے جوش مارا، تو ان سے ملنے لگے گی، بچے ہوں گے، ان سے نانی نانا کا رشتہ ہوگا۔
"تم بھی تو دیوانے تھے اس کے، تم نے کیاکیا"؟
"مس! اس سے میں نے کتنی بار کہا کہ بھاگ چلتے ہیں۔ کہیں دور جہاں کوئی چیز ہماری محبت میں حائل نہ ہو"۔
مگر وہ کہتی تھی نہ تو شادی گناہ ہے نہ محبت۔ پھر بھاگیں کیوں؟ اور بھاگ کر جانے والوں کا انجام بھی اپنوں کے ہاتھوں کچھ اچھا نہیں ہوتا۔
"پتہ نہیں وہ میری خاطر مسلمان ہو ئی تھی یا اسلامی تعلیمات نے اسے متاثر کیاتھا۔ اس نے رمضان میں روزے بھی رکھے"۔
امی یہ دیکھ کر نرم پڑ گئی تھیں، پر ابا نے بقر عید پر اس کا امتحان لیا۔
میں نے اسے چونک کر دیکھا، وہ اپنے انگوٹھے کے غائب ہوتے ناخن کو مزید ادھیڑ رہا تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ایسا کرنے سے منع کیا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی میں انگوٹھا جکڑ لیا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولا۔
"مگر وہ یہ امتحان پاس نہ کر سکی۔ گائے کو ذبح ہوتے دیکھاتو چکرا کر گر پڑی۔ شور مچ گیا، ابا نے کہا اس کا روزے رکھنا مسلمان ہونا سب ایک ڈرامہ ہے۔ اگر ایک مسلمان اللہ کی راہ میں جانور کا خون نہیں دیکھ سکتا، تو وہ کس بات کا مسلمان ہے۔ اگر وہ دل سے مسلمان ہو تی تو یوں پٹ سے نہ گرتی"۔
جب امی ابا کو منانے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو ایک دن جانے مجھے کیاہوا، شدید ڈیپریشن تھا شاید۔ میں نے اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لی تھی، پر بچ گیا۔
امی نے رو رو کر آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کاوعدہ لیا۔
اس واقعے کے بعد سے سادھنا بھی میری طرف سے پریشان رہنے لگی تھی۔ ایک دن میں نے اسے کہا، تم میری خاطر مسلمان ہو سکتی ہو، تو میں ہندو کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ہندو ہوگیا تو تمہارے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
یہ سن کر وہ اور زیادہ پریشان ہوگئی۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ مسلم معاشرے میں مذہب تبدیلی کی سزا موت ہے۔ لوگ تمہیں قتل کر دیں گے۔ ایساسوچنا بھی مت۔ اس روز اس نے مجھ سے ایک وعدہ بھی لیاکہ اگر وہ مر جائے تو اسے مسلمانوں کی طرح دفنایا جائے۔
اس نے اسلامی رسم و رواج اور شرع کے بارے میں مجھ سے زیادہ معلومات جان لی تھیں۔۔
پھر وہ جان سے کیسے گئی"؟
"پتہ نہیں، کوئی کہتا ہے اس نے خود کشی کی، کوئی کہتا ہے اسے قتل کیاگیا۔ کوئی اسے حادثہ کہتا ہے"۔
"وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پکنک منانے گئی تھی، اسے گہرے پانی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ خود کشی کرنے والوں میں سے بھی نہیں تھی۔ اس کی ایک کزن اس کی راز دار تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے والدین کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ مسلمان ہو چکی ہے۔ گھر میں خوب ہنگامہ ہوا۔ دوسرے دن سب نارمل ہوگیا تھا۔ اتوار کوپکنک کا پروگرام بنا۔ اور شام کو وہ سمندر میں غائب ہوگئی۔
اس کی چتا کو آگ لگائی گئی، نہ میں اسے دفن کر سکا۔ میرے دین پر کوئی ضرب لگی، نہ اس کے دھرم پر کو ئی آنچ آئی۔ یہ سمندر کا ظرف تھا کہ اس نے مقدس جسم کو اپنے اندر جذب کر لیا"۔