آپؓ فقہی نقطہ نظر میں ہمیشہ اپنے مؤقف میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ اور اپنی رائے کا برملا اظہار انکی شخصیت اور صحبت نبوی کا ہی وصف اور انکے علمی مقام کو فقہائے امت میں بلند کرتا ہے۔
آپؓ کے فقہی مسائل پر آراء کو مولانا سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرت عائشہ صدیقہؓ میں ترتیب دیتے ہیں جن میں 16 کا ذکر قسط 4 میں ہو چکا ہے۔ باقی کچھ اس ترتیب سے ہیں۔
17 کعبہ میں قربانی بھیجنے والے پر حج کی پابندیاں عائد نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس حضرت ابن عباسؓ ہو جاتی ہیں۔
18 حج میں حائضہ کو طواف و داع کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت عمرؓ کرنا چاہیے (موطا مع زرقانی)
19 حج میں عورت زعفرانی کپڑے پہن سکتی ہے۔
حضرت عمرؓ مکروہ ہے۔ (بخاری، فتح الباری)
20 حج میں عورت کو صرف کسی بھی طرف کا بال ترشوا دینا کافی ہے۔
حضرت ابن زبیرؓ کم از کم چار انگل لازم ہے۔
21 زیور میں زکوۃ نہیں (جیسا کہ بعض روایات میں) ان سے منسوب ہے۔
دیگر اصحاب رسول اللہ ﷺ لازم ہے۔
22 یتیم و نابالغ کے مال میں بھی زکوٰۃ ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ نہیں ہے۔
23 اگر کوئی حاملہ بیوہ ہو جائے تو اس کی عدت کی مدت وضع حمل ہے۔
حضرت ابن عباسؓ، بیوگی کی عام مدت اور حمل کی مدت میں جو زمانہ زیادہ ہوگا وہی عدت کا زمانہ ہوگا۔
24 اگر شوہر بیوی کو طلاق اور مفارقت کا اختیار دے دے اور بیوی اس اختیار کو واپس کرکے شوہر کو ہی پسند کرے تو طلاق نہیں ہوگی۔
حضرت زید بن ثابت و حضرت علیؓ ایک طلاق ہوگی۔
25 سن بلوغت کے بعد آدمی پر کسی عورت سے رضاعت (دودھ پلانے والی عورت کو رضائی ماں اور دودھ شریک بہن بھائی سے نکاح کی حرمت)کے احکامات نافذ ہوتے ہیں۔
دیگر امہات المومنینؓ کے مطابق بلوغت کے بعد رضاعت نہیں ہوتی۔
26 رضاعت کم از کم 5 گھونٹ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔
دیگر صحابہ کرامؓ ایک گھونٹ پینے سے بھی ہو جاتی ہے۔
27 جب تک غلام پر ایک حبہ بھی واجب الادا ہے وہ مکاتب ہے۔
حضرت زید بن ثابتؓ ایک درہم سے کم ہے تو مکاتب نہیں۔
28 چوری کے مال کی قیمت اگر کم از کم 3 درہم بھی ہے تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔
حضرت ابن عباس و ابن مسعودؓ، دس درہم کی مالیت سے کم نہ ہونا چاہیے۔
29 اگر شوہر کو ڈرا دھمکا کر اس کی مرضی کے خلاف اس سے بیوی کو طلاق دلوائی جائے یا کسی آقا سے غلام آزاد کروایا جائے تو نہ طلاق واقع ہوگئی نا غلام آزاد ہوگا۔
آئمہ احناف، طلاق بھی ہوگی اور غلام بھی آزاد ہو جائے گا۔
30 جس کو تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ زمانہ عدت تک شوہر کے گھر رہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ وہ شوہر کے گھر نہ رہے۔
31 اگر کوئی دو بیٹیاں، ایک پوتی، اور ایک پوتا چھوڑ دے، تو ثلث بیٹیوں کا حصہ ہوگا اور باقی پوتے اور پوتی دونوں کا حصہ ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ باقی حصہ صرف پوتے کا ہے پوتی کو کچھ نہیں ملے گا۔
مدینہ کے فقہ کی بنیاد حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بیان کردہ فقہی مسائل پر ہے جس کا بیشتر حصہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موطاء امام مالک میں درج کیا ہے۔
احادیث نبوی ﷺ کے مستند ہونے اور تدوین حدیث کو کافی عرصے بعد مرتب کرنے کے اعتراض کے ساتھ ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا ہے۔ جو احادیث نبوی کی اہمیت سے ہی انکاری ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذات کا ایک ایسا وصف بھی ہے جو اس پہلو کو اجاگر کرتا ہےکہ اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کے قول و افعال کی حفاظت شروع دن سے ہی رکھی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ جب بھی کسی سے حدیث نبوی کی نامکمل تشریح سنتیں تو فوراً اس کی اصلاح فرماتیں۔
جاری ہے۔۔