آئس لینڈ کا اصل جادو وک (Vik) ہے، وک دارالحکومت سے جنوب کی طرف 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، عام حالات میں یہاں پہنچنے کے لیے اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں لیکن برف باری کے دوران یہ فاصلہ چار گھنٹے ہو جاتا ہے، یہ علاقہ یونیسکو کا"گلوبل جیولوجیکل پارک" ہے، وک میں سات سو مربع کلو میٹر طویل گلیشیئر ہے اور گلیشیئر کے چھ سو میٹر نیچے آتش فشاں ہے، برف کی چھ سو میٹر موٹی تہہ کی درزوں سے دھواں نکلتا رہتا ہے۔
ماضی میں یہ آتش فشاں خوفناک دھماکے سے پھٹا تھا جس کے بعد پورے علاقے میں سیاہ پتھروں، چٹانوں اور ریت کی بارش ہوئی، آبشاریں، ندیاں اور نالے بنے اور پھر یہ آتش فشاں دوبارہ برف کے نیچے سو گیا، یہ علاقہ اپنی سیاہ چٹانوں، سیاہ پتھروں اور سیاہ ریت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، آپ نے دنیا میں ہزاروں قسم کے ساحل دیکھے ہوں گے لیکن آپ سیاہ ریت کے ساحلوں کے تجربے سے نہیں گزرے ہوں گے۔
آپ نے سمندر کے اندر ابھری ہوئی سیاہ چٹانیں بھی نہیں دیکھی ہوں گی اور آپ نے سمندر اور گلیشیئر کے سنگم پر زمین سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کا مشاہدہ بھی نہیں کیا ہوگا، وک میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں، یہ علاقہ پاکستان اور بھارت میں شاہ رخ خان کی فلم "دل والے" کی وجہ سے متعارف ہوا، فلم کا ایک گانا وک میں فلمایا گیا تھا، گانا اتنا مشہور نہیں ہوا جتنی اس کی میکنگ نے شہرت حاصل کی، آپ گوگل پر "دل والے ان آئس لینڈ" ٹائپ کریں تو آپ کو میکنگ کا سارا عمل مل جائے گا۔
1973ء میں امریکن نیوی کے ایک ڈی سی جہاز نے وک کے علاقے سولہی مسانڈور (Sólheimasandur) میں کریش لینڈنگ کی، جہاز کا تیل اچانک ختم ہوگیا تھا چنانچہ پائلٹ کے پاس کریش لینڈنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، خوش قسمتی سے تمام مسافر محفوظ رہے، جہاز کا ڈھانچہ آج بھی ساحل پر موجود ہے۔
یہ علاقہ آبشاروں کی وجہ سے مشہور ہے، آپ کو یہ آبشاریں مختلف فلموں میں نظر آئیں گی اور یہ علاقہ آئس لینڈ کے مخصوص پرندوں پفنز (Puffins) اور اپنے خاص چٹانی سلسلے کی وجہ سے بھی مشہور ہے، پفنز ایک مختلف پرندہ ہے، آپ کو یہ پرندہ قطب شمالی اور آئس لینڈ میں ملتا ہے، اس کی چونچ پیلے رنگ کی ہوتی ہے اور یہ صلح جو فطرت کا مالک ہوتا ہے۔
یہ پرندہ آئس لینڈ کے شناختی نشان کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ وک کی چٹانیں قدرتی اہرام ہیں، آپ کو میلوں تک پتھروں کے اوپر پتھر دھرے نظر آتے ہیں، یہ پتھر قدرتی طور پر تراشے ہوئے ہیں، یہ فارمیشن پانی، زلزلوں، آتش فشانوں، برف اور تیز ہواؤں کی صناعی ہے، قدرت کو انھیں اس مقام اور ہیت تک پہنچانے میں ہزاروں سال لگے۔
ہم پورے دن کی مسافت کے بعد شام کے وقت وک پہنچے، پورا ٹاؤن برف میں دفن تھا، سڑک بڑی مشکل سے نظر آ رہی تھی، ہم راستے میں آبشاروں کے پاس رکتے ہوئے وک پہنچے تھے، وک کے مضافات میں دو بڑی آبشاریں تھیں، پہلی آبشار 65 میٹر کی بلندی سے گر رہی تھی، آبشار کے پیچھے جانے کا راستہ بھی موجود تھا لیکن وہ راستہ برف کی وجہ سے بند تھا ورنہ ہم آبشار کے پیچھے کھڑے ہو جاتے اور برف کی چادر ہمیں چھپا لیتی۔
گرمیوں میں زیادہ تر سیاح اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ اوپر چڑھتے ہیں، آبشار کے پیچھے قدرتی ٹیرس بنا ہے، یہ ٹیرس پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پانی کی چادر ان کے سامنے سے نیچے گرتی ہے، پانی زمین پر پہنچ کر دریا بنتا ہے اور یہ دریا سانپ کی طرح بل کھا کر وادی میں گم ہو جاتا ہے، دوسری آبشار زیادہ بڑی اور زیادہ ہیبت ناک تھی، اس کے ساتھ پہاڑ پر ہزار سیڑھیاں بنی تھیں، لوگ سیڑھیاں چڑھ کر آبشار کی انتہائی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں۔
برف باری جاری تھی لیکن ہم چاروں اس کے باوجود سیڑھیاں چڑھ گئے، سہیل مقصود موٹاپے کی طرف مائل ہیں، ہمارا خیال تھا یہ اوپر نہیں پہنچ سکیں گے لیکن یہ ہم سب سے پہلے اوپر پہنچے، دیسی خوراکیں بہرحال دیسی خوراکیں ہوتی ہیں اور سہیل بھائی ان کا شاندار نمونہ ہیں، ان کی ہڈیاں اور سانس دونوں مضبوط ہیں، آبشار کا انتہائی بلند مقام گلیشیئر کا نکتہ آغاز ہے، آپ آبشار کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں، آپ گلیشیئر کے اندر داخل ہوتے چلے جائیں گے۔
ہم گلیشیئر پر ایک کلومیٹر تک آگے چلے گئے، وہاں کھلا آسمان، دور دور تک برف اور آبشار کے پانی کے سوا کچھ نہیں تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا زمین ابھی ابتدائی سانسیں لے رہی ہے اور ہم چار لوگ "آئس ایج" کے ایسے وحشی جانور ہیں جو خوراک کی تلاش میں برفستان میں مارے مارے پھر رہے ہیں، ہم برفانی ہرن تلاش کر رہے ہیں اور برفانی ریچھ ہمارے تھکنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہرن ہم سے بھاگ رہا ہے اور ہم ریچھوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن رات تک کسی نہ کسی نے کسی نہ کسی کا نوالہ بن جانا ہے، میں نے جھرجھری لی اور واپسی کا اعلان کر دیا، ہم واپس اسی مقام پر آ گئے جہاں سے آبشار کا پانی دھماکے سے نیچے گر رہا تھا، یہ آبشار میلوں دور سے یہاں آ رہی تھی، یہ راستے میں 24 مرتبہ آبشار بنتی ہے، آبشار پر روزانہ دو "رین بو" بنتی ہیں، اس دن برف باری کی وجہ سے رین بو نہ بن سکیں، ان شاء اللہ ہم گرمیوں میں اس کے لیے یہاں دوبارہ آئیں گے۔
ہم آبشار سے گلے مل کر وک پہنچے تو سورج ڈوب چکا تھا اور پورا ٹاؤن گھروں کے اندر پناہ لے چکا تھا، ہوٹل میں صرف دو کمرے خالی تھے، ہم نے وہ دونوں ہتھیا لیے، رات بھر برف باری ہوتی رہی، باہر برف کا شور تھا اور کمرے میں سہیل بھائی کے خراٹے تھے، میں نے ساری رات یہ تعین کرتے ہوئے گزار دی باہر زیادہ شور ہے یا کمرے کے اندر، صبح کے وقت بہرحال سہیل مقصود جیت گئے، برفیلے طوفان ان کے خراٹوں کا مقابلہ نہ کر سکے، وہ پسپا ہو گئے، برف باری رک گئی، سورج نکل آیا۔
برف پر سورج کی کرنیں قوس قزح بن جاتی ہیں، ہم برف پر چلتے ہوئے ساحل پر پہنچے، سمندر کے اندر سے تین چٹانیں سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھ رہی تھیں، یہ دور سے تین سیاہ دیواریں محسوس ہوتی تھیں، سورج ان کے ماتھے پر اپنے رنگ رگڑ رہا تھا، چٹانوں میں چمک سی پیدا ہوگئی تھی، میں نے زندگی میں پہلی بار کالی ریت کا ساحل دیکھا تھا، زمین پر دور دور تک سیاہ کالی ریت بکھری تھی، وہ قدرتی کوئلے کی طرح کالی اور چمکدار تھی۔
میں ریت پر چلتا چلتا دور نکل گیا، میرے قدموں کے نشان میرا پیچھا کر رہے تھے، میں جہاں رک جاتا تھا یہ بھی وہیں رک جاتے تھے اور جب میں چلنا شروع کرتا تھا تو یہ بھی چل پڑتے تھے، سیاہ ریت میں سیاہ قدم زمین پر ایک عجیب سا پیٹرن بن گیا تھا، ریت سے آگے سیاہ بجری تھی، یہ مونگ کی دال کے سائز کے چھوٹے پتھر تھے، میں نے یہ پتھر بھی زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے، میں جہاں قدم رکھتا تھا، میرا پاؤں وہاں پتھروں میں دھنس جاتا تھا۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، میرے پیچھے پتھروں کی وسیع قدرتی دیوار تھی، دیوار سے ٹوٹ کر پانی کے اندر سیاہ چٹانیں تھیں، چٹانوں کے ساتھ ناراض سمندر تھا، سمندر کے ساتھ ساتھ سیاہ ریت تھی اور ریت کے آگے سیاہ بجری تھی اور میرے دائیں بازو سے سورج سمندر سے نہا کر نکل رہا تھا، وہ منظر، منظر نہیں تھا، وہ ایک خواب تھا، ایک ایسا خواب جس پر زندگی کی ہزاروں تعبیریں قربان کی جا سکتی تھیں، میں نے لمبا سانس لیا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ہم گلیشیئر کے لیے روانہ ہو گئے۔
وک سے گلیشیئر کے ٹورز چلتے ہیں، یہ ٹورز خصوصی گاڑیوں پر گلیشیئر کے اندر تک جاتے ہیں، گاڑیاں اوپر سے بڑے سائز کی جیپ ہوتی ہیں اور ان کے نیچے ٹریکٹر کے ٹائر لگے ہوتے ہیں، انجن چھ ہزار ہارس پاور کے ہوتے ہیں، گاڑی میں ایک وقت میں آٹھ لوگ بیٹھ سکتے ہیں، ہمارے ساتھ تین امریکی سیاح تھے، دو خواتین اور ایک مرد، یہ لوگ امریکی ریاست ٹیکساس سے آئس لینڈ آئے تھے، یہ ٹورز مہنگے ہوتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود لائف ٹائم تجربہ ہوتے ہیں۔
ہماری گاڑی برف کے صحرا میں دھکے کھاتی ہوئی بڑی مشکل سے گلیشیئر تک پہنچی، یہ راستے میں کئی بار برف میں دھنسی اور یہ کئی بار گرتی گرتی بچی، ہمیں ہر موڑ پر محسوس ہوتا تھا دنیا کے اس مقام پر حادثے کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے "موت"۔ انسان برف میں دھنس کر مر جاتا ہے یا پھر سردی سے، بچنا تقریباً محال ہے، ہم گلیشیئر کے درمیان پہنچ کر رک گئے، آگے کا سفر پیدل تھا، ڈرائیور نے ہمیں ہیلمٹ بھی دے دیے اور ہمارے جوتوں پر برف میں چلنے والے شکنجے بھی چڑھا دیے، وہ اس کے بعد بیلچہ لے کر ہمارے آگے آگے چل پڑا اور ہم اندھوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے۔
یہ میرا گلیشیئر پر چلنے کا پہلا تجربہ تھا، ہم گھٹنوں گھٹنوں تک برف میں دھنس جاتے تھے، ایک قدم دو منٹ میں اٹھتا تھا، ہم نے آدھ میل کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے کیا، سفر کا اختتام برف کے غار پر ہوا، یہ "آئس کیو" تھا، ہر سردیوں میں گلیشیئر پر برف کے درجنوں غار بن جاتے ہیں، یہ غار پانی کی گزرگاہوں پر بنتے ہیں، پانی برف بن جاتا ہے اور ہوا اس برف کے اندر غار بنا دیتی ہے، ہمارے سامنے برف کا سیاہ غار تھا، ہم غار کے اندر داخل ہو گئے۔
غار کی چھت اور دیواریں شفاف برف کی بنی ہوئی تھیں، ٹارچ کی روشنی نے دیواروں کو موتیوں اور ہیروں کی چادر بنا دیا تھا، دیوار کا ایک ایک انچ چمک رہا تھا، چھت قطرہ قطرہ بہہ رہی تھی، میں نے اوپر دیکھا اور میرا دل بیٹھ گیا، چھت کسی بھی وقت بیٹھ سکتی تھی اور ہم آٹھ مسافر برف کی قبر میں دفن ہو سکتے تھے اور اس کے بعد دنیا میں ہمارا نشان رہتا اور نہ ہی پتہ، میں نے جھرجھری لی اور ساتھیوں سے چلا کر کہا "آؤ واپس چلتے ہیں" غار میں میری آواز گونجی "آؤ واپس چلتے ہیں، آؤ واپس چلتے ہیں" اور اس کے ساتھ ہی چھت تیزی سے ٹپکنے لگی، مجھے محسوس ہوا چھت ٹوٹ رہی ہے، میری ریڑھ کی ہڈی برف بن گئی، میں باہر آ گیا۔