1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. جاوید چوہدری/
  4. خادم اعلیٰ کے لیے تالیاں

خادم اعلیٰ کے لیے تالیاں

کہانی کا آخری حصہ 2014ء میں لکھا گیا، نومبر 2014ء میں انٹرنیشنل اخبارات میں خبر شایع ہوئی "دنیا کے ایک نامور سائنس دان مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنا نوبل انعام فروخت کرنا چاہتے ہیں" یہ خبر حیران کن تھی، دنیا میں کسی نے کبھی نوبل انعام فروخت نہیں کیا تھا چنانچہ کرہ ارض کے بے شمار امراء اور رئیس خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔

دسمبر 2014ء میں نیلامی ہوئی اور روس کے ارب پتی مسلمان تاجر علی شیر عثمانوف نے 48 لاکھ ڈالرز میں وہ نوبل انعام خرید لیا، رقم ٹرانسفر ہوئی اور سائنس دان نے اپنا نوبل پرائز علی شیر کو بھجوا دیا، علی شیر چند دن بعد امریکا آیا، سائنس دان کے دفتر گیا، نوبل انعام واپس کیا اور بیان جاری کیا "جیمز ڈی واٹسن دنیا کے عظیم محسن ہیں، ہم میں سے کوئی شخص ان کے نوبل انعام کا حق دار نہیں ہو سکتا چنانچہ میں ان کا انعام انھیں واپس لوٹا رہا ہوں، میرے 48 لاکھ ڈالرز ڈاکٹر واٹسن کے لیے ایک فین کی طرف سے معمولی سا عطیہ ہیں" ڈاکٹر واٹسن نے شکریہ ادا کیا اور وہ لیبارٹری میں چلے گئے۔

کہانی کا درمیانی حصہ دنیا کے دو مختلف حصوں میں پیدا ہونے والے دو سائنس دانوں کی مشترکہ کاوش پر مبنی تھا لیکن ہم درمیانی حصے کی طرف آنے سے پہلے کہانی کے ابتدائی حصے کی طرف آئیں گے، جیمز ڈی واٹسن (James Dewey Watson) 1928ء میں شکاگو میں پیدا ہوئے، یہ اکلوتی اولاد تھے، والدین غریب تھے چنانچہ ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول ہوریس مان گرامر اسکول سے مکمل کی، ڈاکٹر واٹسن نے 1947ء میں زوالوجی میں گریجوایشن کی اور 1950ء میں انڈیانا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی، یہ اس کے بعد کیمبرج یونیورسٹی شفٹ ہو گئے، یہ انسانی خلیات پر ریسرچ کرنا چاہتے تھے، کیمبرج یونیورسٹی نے انھیں لیبارٹری میں کام کی اجازت دے دی۔

ہم مزید آگے بڑھنے سے قبل فرانسیس کرک کی طرف آئیں گے، فرانسیس کرک 1916ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ہل مل اسکول سے حاصل کی، یہ بھی غریب والدین کی اولاد تھے چنانچہ یہ بھی سرکاری اسکولوں میں سرکاری امداد پر تعلیم حاصل کرتے رہے، ڈاکٹر کرک نے 21 سال کی عمر میں یونیورسٹی کالج لندن سے فزکس میں ڈگری لی، پی ایچ ڈی کی اور مالیکیولر بائیالوجی میں کام شروع کر دیا، یہ بائیو فزکس اور نیورو سائنس میں بھی دلچسپی رکھتے تھے، یہ بھی ڈاکٹر واٹسن کی طرح انسانی خلیات پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی، ڈاکٹر کرک کا کام بند ہوگیا، وہ ضدی انسان تھے چنانچہ وہ جنگ عظیم دوم کے دوران بھی مختلف فیلو شپس پر کام کرتے رہے۔

وہ ایک ایک انچ آگے سرکتے رہے، جنگ ختم ہوئی تو ڈاکٹر کرک بھی کیمبرج یونیورسٹی پہنچ گئے اور وہ بھی لیبارٹری میں کام کرنے لگے، کیمبرج میں سائنس دانوں نے کرسٹل لو گرافک سسٹم ایجاد کیا تھا، یہ لوگ ایکس رے کی مدد سے کرسٹل لو گرافی کرتے تھے اور مختلف اشیاء کے مالیکیولز کا تجزیہ کرتے تھے، یہ لوگ کرسٹل لو گرافی کے ذریعے انسانی خلیے کے نیوکلیس کے اندر گھس گئے، انھوں نے ایکس رے کی مدد سے نیوکلیس کی تصویر بھی بنا لی، تصویر کا سائز بڑا کیا گیا تو یہ لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے قدرت نے نیوکلیس کے اندر اربوں کی تعداد میں الجھے ہوئے دھاگے بنا رکھے ہیں، یہ دھاگے معلومات کی "چپ" ہیں، دھاگوں پر ریسرچ ہوئی تو سائنس دانوں نے اسے ڈی آکسی رائبو نیو کلیک ایسڈ (Deoxyribonucleic acid)کا نام دے دیا، ڈی این اے اسی کا مخفف ہے۔

ڈی این اے ایک مشکل اور نہ سمجھ آنے والا مادہ تھا، یہ وراثتی معلومات کا بینک تھا، انسان کیا ہے، اس کی جنس کیا ہے، اس کے بالوں اور آنکھوں کا رنگ کیا ہوگا، یہ کس وقت سوئے گا اور یہ کس وقت جاگے گا، اس کی عمر کتنی ہوگی، اس کا وزن، جسامت اور سوچ کیا ہوگی، یہ کس عمر میں کون کون سی بیماری کا شکار ہوگا اور یہ کون کون سی وراثتی بیماریاں لے کر پیدا ہوگا؟ قدرت یہ تمام معلومات ڈی این اے میں درج کر دیتی ہے، انسان 50 فیصد ڈی این اے والد اور 50 فیصد والدہ سے لیتا ہے، یہ الجھے ہوئے لچھے دار دھاگوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔

ہم اگر اسے عام زبان میں سمجھنا چاہیں تو ہم دو اسپرنگ لیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے میں پھنسا دیں، دو اسپرنگ مل کر جو فارمیشن بنائیں گے وہ ڈی این اے کی شکل ہوگی، سائنس دانوں کو ڈی این اے مل گیا تھا لیکن ڈی این اے کے اندر کیا ہے! یہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے چنانچہ یہ لوگ اس تحقیق میں لگ گئے، سائنس دان آتے رہے، کام کرتے رہے اور تھک تھک کر جاتے رہے، آخر میں صرف دو لوگ رہ گئے، جیمز ڈی واٹسن اور فرانسیس کرک، یہ دونوں مسلسل کام کرتے رہے، کیمبرج کے سیکڑوں سائنس دان دیکھ رہے تھے آخر میں کون کامیاب ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جیمز واٹسن روزانہ گولیوں اور تنکوں کی مدد سے ڈی این اے کے ماڈل بناتے تھے اور قدرت کے اس شاہکار کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن معمہ حل ہونے پر نہیں آتا تھا جب کہ ڈاکٹر فرانسیس کرک یہ کام ڈرائنگ بورڈ پر رنگین پنسلوں کے ذریعے کرتے تھے لیکن وہ بھی ادراک کی حدود سے سیکڑوں میل دور بیٹھے تھے، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں سائنس دان 1953ء میں ملے اور دونوں نے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا، یہ دونوں اکٹھے ہو گئے، دونوں نے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کیا اور یوں یہ ڈی این اے کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔ پتہ چلا دنیا کے ہر انسان کے ڈی این اے مختلف ہوتے ہیں، ایک انسان کا ڈی این اے دوسرے سے نہیں ملتا لیکن ایک انسان کے جسم میں موجود تمام سیلوں کا ڈی این اے ایک ہوتا ہے، ڈی این اے ایک پرنٹ، ایک ڈیزائن ہوتا ہے۔

یہ پرنٹ، یہ ڈیزائن ایک کپڑے پر ایک اور دوسرے پر دوسرا ہوتا ہے، دنیا میں آج تک جتنے انسان پیدا ہوئے، جتنے ہو رہے ہیں اور جتنے ہوں گے ان کا ڈی این اے ڈیزائن ایک دوسرے سے مختلف تھا، مختلف ہے اور مختلف ہوگا اور یہ وہ انفرادیت ہے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا، میں نے ہر انسان کو دوسرے انسان سے مختلف بنایا، قدرت انسان سے متعلق تمام ڈیٹا ڈی این اے میں اسٹور کر دیتی ہے، آپ لاکھوں سال پرانے انسان کا کوئی بال لیں، ڈی این اے الگ کریں اور یہ اس انسان سے متعلق تمام معلومات اگل دے گا، یہ اس کی موت کی وجہ اور وقت بھی بتا دے گا، ڈاکٹر واٹسن اور ڈاکٹرکرک نے کیمبرج کی کیونڈش لیبارٹری میں 1953ء میں اپنا کام مکمل کیا، اپنا تھیسس جمع کرایا اور الگ الگ ہو گئے، ڈاکٹر واٹسن امریکا واپس آ گئے، امریکی حکومت نے انھیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ واشنگٹن کی ذمے داری سونپ دی۔

یہ انسٹی ٹیوٹ میں انسانی جینز پر کام کرتے رہے، یہ 1956ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے بائیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے بھی وابستہ ہو گئے، یہ ترقی کرتے کرتے پروفیسر بن گئے، یہ وہاں آر این اے پر کام کرتے رہے، آر این اے ایک ایسا سسٹم ہے جس کے ذریعے ایک نسل اپنی عادتیں اور علامتیں اگلی نسل کو منتقل کرتی ہے جب کہ ڈاکٹر کرک برطانیہ میں مالیکیولر بائیالوجی میں مزید کام کرنے لگے، یہ 2004ء میں 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، نوبل پرائز کمیٹی نے 1962ء میں دونوں سائنس دانوں کو ڈی این اے ڈسکوری کی بنیاد پر نوبل انعام دیا، یہ ایوارڈ مشترکہ تھا اور یوں دنیا میں ڈی این اے ٹیسٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا، یہ ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟

ہم اب اس طرف آتے ہیں، ڈی این اے اور جینز تھراپی دنیا کی جدید ترین سائنس ہیں، یہ مستقبل میں انسان کو سمجھنے اور انسان کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی لیکن ڈی این اے سردست ولدیت اور مجرم کی شناخت کا ناقابل تردید عمل ہے، ڈی این اے کرنے والے لوگ کسی بھی شخص کا بال، ہڈی، گوشت اور خون کا نمونہ لیتے ہیں، یہ اس میں سے کوئی خلیہ نکالتے ہیں، خلیے سے ڈی این اے الگ کرتے ہیں اور پولی مریز چین ری ایکشن کے ذریعے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لیتے ہیں، یہ کاپیاں فنگر پرنٹ ہوتی ہیں، یہ اس کے بعد ان کاپیوں کا تقابل مشکوک ڈی این اے کی کاپیوں سے کرتے ہیں اور سیکنڈز میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔

آپ مثلاً زینب فاطمہ کے کیس کو لے لیجیے، زینب فاطمہ کے جسم پر ملزم کا مواد موجود تھا، ڈی این اے کے ماہرین نے مواد کا پولی مریز چین ری ایکشن کیا، ملزم کے ڈی این اے کی کاپیاں بن گئیں، یہ ملزم کے فنگر پرنٹس تھے، ماہرین بعد ازاں مشکوک افراد کے خون کے نمونے لیتے رہے اور ان کے ڈی این اے کی کاپیوں کو ملزم کے ڈی این اے کی کاپیوں سے ملا کر چیک کرتے رہے، لوگ بے گناہ ثابت ہوتے رہے لیکن آخر میں جب عمران علی کے خون کا نمونہ آیا اور اس کا ٹیسٹ ہوا تو اس کا ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے سے میچ کر گیا اور یوں عمران علی مجرم ثابت ہوگیا۔ یہ پکڑا گیا۔

قوم کو یہاں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے عمران علی کا ڈی این اے ٹیسٹ لاہور کی فرانزک لیب میں ہوا تھا، یہ ٹیسٹ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنی دبڑ دھوس لیبارٹری میں نہیں کیا تھا ورنہ یہ ملزم کے ڈی این اے سے 80 بینک اکاؤنٹس بھی نکال لیتے اور ان میں لاکھوں ڈالرز کی آمدورفت بھی دیکھ لیتے اور یوں نوبل پرائز کمیٹی ڈاکٹر شاہد مسعود کو نوبل پرائز دینے پر بھی مجبور ہو جاتی اور دنیا میں ڈی این اے بینک اکاؤنٹس کی نئی سائنس کی بنیاد بھی پڑ جاتی، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے سائنس، نوبل پرائز کمیٹی اور پاکستان تینوں اس "اینڈ آف ٹائم" سے بچ گئے۔ قیامت بس ہمارے کانوں کو چھو کر گزر گئی ورنہ ہم سستی کے مارے کس کس کو منہ دکھاتے؟

ڈاکٹر جیمز واٹسن اور ڈاکٹر فرانسیس کرک اصلی ڈاکٹر اور پوری دنیا کے خادم اعلیٰ ہیں، یہ دنیا کو ایک ایسا فول پروف سسٹم دے گئے جس کے ذریعے کوئی مجرم اب جرم کے بعد بچ نہیں سکتا اور کسی بچے کی ولدیت نہیں چھپ سکتی، میں ان دونوں کو اصل شائننگ اسٹارز سمجھتا ہوں، ہم لوگ ایک لیب بنا کر اترا رہے ہیں جب کہ یہ دونوں پوری دنیا کو ڈی این اے لیبارٹری بنا گئے چنانچہ میرا خیال ہے پاکستانی قوم کو ان دونوں عالمی سپوتوں کے حق میں تالیاں بھی بجانی چاہئیں اور سوموٹو نوٹس لے کر ان کو خراج تحسین بھی پیش کرنا چاہیے، کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ انسانیت کے اصل خادم ہیں، یہ تالیوں کے اصل حق دار ہیں۔

جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔