1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. لگے رہنے دے

لگے رہنے دے

بچپن میں پڑھا کرتے تھے اسلام نے ہندوستان میں جمپ مار کر برہمن، شودر، کھشتری وغیرہ کی تقسیم پر ضرب لگائی اور یوں مقامی ہندو برادی مسلمان ہوگئی۔ بہت کیوٹ سٹوری لگتی تھی۔ بعد ازاں قریش اور غیر قریش کے بیچ چھتیس کا آکڑہ پڑھنے کو ملا، خلافت و امامت کے درمیان تفریق پڑھنی پڑی تو طبیعت بہترین صاف ہوگئی۔ ذرا بڑے ہونے لگے تو خاندان میں یہاں اور وہاں سے غوری، یوسفزئی اور راجپوت ہونے پر بغلیں بجانے کی للکار سنائی دیتی۔ ابا جی سے پوچھتے تو جواب ملتا جس کا نصف مساوی لہجۂ باچیزی میں ترجمہ کیا جائے تو "چوتیے ہیں، لگے رہنے دے" ملتا۔

سو چوتیوں کو لگے رہنے دیا۔ احساس ہوا کہ واقعی چوتیے ہیں۔ مطلب لگے ہی رہتے ہیں۔

کچھ اور بڑے ہوئے تو ایک خاص مسلک سے تعلق بنا، جو مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ زیادہ اندر گھسے تو سننے میں آیا کہ فسانے کا جو زاویہ وہ بتلاتے ہیں اسے نہ ماننا ہی دراصل ولد الحرام ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ خدا بھلا فرمائے سائینس کا جو مسلکیوں کو اگناسٹسزم کے گھنٹہ گھر سے ہانکتی ڈی این اے کے چوک یادگار پر ایمان تک لے آتی ہے، جہاں سے آگے کھبے مڑ کر ڈی این اے کی بات کرنی پڑ جاتی ہے۔

تفاخر کا کیڑا البتہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتا۔ کسی کے آباء و اجداد کا شہید ہونا اگر باعث فخر ہے تو اسرائیلی اس دنیا کی خوش نصیب قوم کا درجہ پاتے ہیں، کہ ستر بہتر نہیں لاکھوں کی تعداد میں دادے پردادے نانے پرنانے قربان ہوئے۔ تفاخر اگر آباء و اجداد پر کرنا ہے تو ان کے اوصاف پر کرنا پڑے گا۔

اوصاف البتہ میرے اور آپ کے نزدیک الگ ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے کافی اگناسٹک احباب سجدہ کرکے اپنی پیشانی پر مہر لگوانے والوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں، حالانکہ ایک طبقے کے نزدیک محرابی ماتھا ماشاءاللہ و سبحان اللہ ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح ایک اور دوست نکاح پر یک لیلوی اٹھان کو فوقیت بخشتے ہیں، حالانکہ ایک طبقے کے نزدیک مؤخر الذکر توبہ استغفر اللہ کا مؤجب سمجھتے ہیں۔ گویا اوصاف تو آپ سامنے لائیں گے بات تبھی ہوگی کہ ان پر فخر بنتا ہے یا شرم۔ اس میں میرے نزدیک تو کوئی دو رائے نہیں۔ تاہم جس طرح الٹرا پرومیکس یخود "وغیرہ" عورت کو پردے میں چھپا کر تعظیم کے پردے کے پیچھے چھپ کر اوصاف نکالتے ہیں، اگر ویسے والے اوصاف بھی دکھانے ہیں اور اگناسٹک بھی رہنا ہے تو ٹھیک ہے، ہم میا خلیفہ کی جانب سے پردے کے فضائل کو بھی ان کا حق سمجھتے ہیں، ہنسیں گے تو البتہ ضرور۔

اس کے بعد آجاتے ہیں اجداد کے اوصاف کی حقانیت پر۔ عمران خان جیل میں ہے، نواز شریف اور زرداری جیل میں تھے، یہ حقائق ہیں۔ یہ تینوں جیل کی ہوا کیوں کھاتے رہے، اس سوال کے جواب کی نوعیت کے لیے بابے اوپر نیچے کرنے کروانے پڑتے ہیں۔ یہ سب ہمارے سامنے کی باتیں ہیں۔ 1400 برس بعد ان پر جو بھی بات ہوگی وہ تاریخ کی کتابوں کے ذریعے ہوا کرے گی۔ ویسے ہی، جیسے اب سے 1400 برس پہلے کے قصے کہانیاں واقعات و حالات و معاملات ہم تک تاریخی کتابوں تک پہنچے۔ 1400 برس بعد پھر بعد کی بات ہے، آپ کو 14 دنوں پہلے کے واقعات کے دو رخ آج بھی ملتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی ایک فریق کا بابا اوپر تو کسی دوسرے کا نیچے ہوتا ہے۔ ویسے ہی جیسے 1400 برس پہلے کے واقعات پر دو اطراف اپنا اپنا سچ بیان کرتی ہیں۔

گویا 1400 برس قبل کے اوصاف تاریخ کے جن اوراق کے ذریعے ہم تک پہنچے، ان کی آفاقیت، حقانیت پر ایمان لانا ویسے ہی کسی پر ضروری نہیں جیسے خدا کے وجود پر کسی سکہ بند یا موسمی اگناسٹک کا ایمان لانا ضروری نہیں۔ اب اگر کسی سکہ بند یا موسمی اگناسٹک کی زبان کو خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، بس ویسے ہی کسی سکہ بند یا موسمی اگناسٹک کے 1400 سال پرانے اجداد کے اوصاف پر تاریخی اوراق کے بیان کردہ خصائل پر ایمان لانے پر بھی مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

اب اگر کوئی اس بات پر ایمان لانے کا مطالبہ کرے کہ 1400 برس قبل پیدا ہوکر زندگی گزار کر گزر جانے والے میرے آباء و اجداد پر ایمان لایا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ظاہر ہے، ہم سب نسلِ انسانی ہیں جس کا وجود 1400 برس قبل بھی ثابت ہے۔ کوئی اس بات پر مصر ہو کہ میری سی وی اور زندگی کے میدان میں کارناموں کو بنیاد بنا کر میری عزت کرو، تو یہ بات بھی نظام ہضم پر بھاری ہرگز نہیں۔ یار کہہ رہا ہے اگلا، مان لو، دل میں بیشک چول مانتے رہو، کیا فرق پڑتا ہے۔

لیکن، اگر کوئی یہ کہے کہ تاریخ کے ان اوراق کو، جن کی حقانیت و آفاقیت پر ہی اگلے گتوں کی سالانہ لڑائی برپا کر دیتے ہیں، پر ایمان لاتے ہوئے اگلے کے 1400 برس قبل گزرے اجداد کے ان اوصاف پر ایمان لایا جائے جو عقیدت و تعظیم کے خول کے پیچھے شنید ہے کہ کہیں موجود رہے، اور پھر ان اوصاف کی بنیاد پر اصرار کرنے والے کو عظمت کے برج خلیفے پر براجمان مانا جائے، اور پھر مزید اصرار یہ بھی کرے کہ اتنا ثقیل قسم کا ایمان نہ لانے کا اعلان کرنے کو اگلا اپنی اعلانیہ تذلیل سمجھے گا، تو میرے بھائیوں، میرے دوستوں، آپ ہی بتا دیں پھر اور کیا لٹکائیں؟

یہ ساری رام کتھا آپ کسی بھی نسلی تفاخر کی بیماری میں مبتلا شخص کی ذات پات رنگ نسل پر رکھ کر پڑھ لیں، بخدا کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ بیماری کسی سید کو بھی لاحق ہو سکتی ہے اور کسی راؤ کو بھی۔ میں نے یہ بیماری اعوانوں میں بھی دیکھی ہے، آرائیوں میں بھی، خٹکوں میں بھی۔

جب کوئی پٹھان کسی پنجابی کو حقارت کے ساتھ دال خور کہتا ہے، یا کوئی سندھی کسی مہاجر کو مٹروا کہتا ہے، یا کوئی مہاجر کسی پنجابی کو پینڈو کہتا ہے، تو ان تمام الفاظ میں الفاظ کا معنی گھنٹہ کوئی نہیں دیکھتا۔ الفاظ کے پیچھے چھپی حقارت اصل مدعا ہوا کرتی ہے۔ یہ حقارت ضروری نہیں کہ ان الفاظ کے ذریعے ہی ظاہر کی جائے۔ کچھ بیمار الذہن و دہن افراد کو تفاخر کے سنگھاسن پر بیٹھ کر بھی دوسروں کو حقیر دکھانے کا خبط ہوتا ہے۔ یہ خبط بلاوجہ ہے یا باوجہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ لکیر کے کس جانب کھڑے ہیں۔

تو سر جی۔۔ آپ چاہے تفاخر کے برج خلیفے پر بیٹھ کر اپنی بیماری ظاہر کریں یا وہاں سے کسی جانگلی، جاٹ یا رانگڑ کو اپنے تئیں وٹے مار کر بغلیں بجانے کا تاثر دیں، آپ جیسوں کو دیکھ کر بات وہی یاد آتی ہے۔۔

"چوتیے ہیں، لگے رہنے دے"۔