انسان جب تک اپنے دیس کا باسی رہتا ہے، کفران نعمت کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ پردیس نقل مکانی کے بعد البتہ یہ سلسلہ تھم سا جاتا ہے۔ وطن سے دوری انسان کو بہت سے سبق سکھاتی ہے۔ بظاہر غیر اہم دکھائی دینے والی چیزوں، کاموں یا جگہوں کی اہمیت سمجھنا ایسا ہی ایک سبق ہے۔17 اگست 2016 کو راقم الحروف کی فلائیٹ خیر و عافیت سے کراچی پہنچی۔ درج ذیل تحریر تب سے اب تک کے سفر اور دوران سفر بندے کی کیفیت و جذبات کی قلمبندی ہے۔
امارات کی چکاچوند روشنیوں سے مانوس ہوے ایک سال ہوا تو ہم فراغت کے لمحات میں سکون کی تلاش میں راس الخيمة، فجیرہ وغیرہ کی جانب راغب ہوے۔ اگلے 3 برس صحرا، ریت اور پہاڑ تو خوب ملے مگر قدرت نے نخلستان العرب کو بہرحال تازے پانی اور سبزے سے قدرے محروم رکھا ہے۔ جب جب ان جگہوں سے گزر ہو، قدرت کی بھرپور آب و تاب کے باوجود کسی دریا کی کمی بہرصورت محسوس ہوتی ہے۔ اب کے جو پاکستان جانا ہوا، کراچی اترتے ہی میاں منظور صاحب نے اندرون سندھ ملاقات اور مچھلی کے شکار کی دعوت دی۔ خیالات نے ذہن کے سندھی خاکے پہ پھبتی کستے ہوے صدا لگائی: "بھیا، بنجر سندھ میں جا کے کرو گے کیا؟" یہیں بس نہ ہوئی بلکہ چند ڈبے کا دودھ پی کر بڑے ہونے والے دوستوں نے بھی ڈرایا کہ بھائی سندھ تو پانی کے لیے ترس رہا ہے اور تم چلے ہو مچھلی کا شکار کھیلنے۔ آپ اسے مکافات عمل کہہ لیجیے یا ستم ظریفی کی حد، جس دن ہمیں "پانی کو ترستے سندھ" کی جانب گامزن ہونا تھا عین اسی دن صبح سے کراچی شہر کا پانی بند تھا۔ ان الحكم الا لله!
تو صاحب، اللہ کا نام لے کے ہم روانہ ہوتے ہیں ٹنڈو الہہ یار۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی پیر الہی بخش کالونی کے قریب سے افضل بھائی نے ہمیں اپنی گاڑی میں لادا اور ہم بسم اللہ پڑھتے ساتھ ہو لیے۔ مہمانان گرامی کی اجازت سے ہم نے چھوٹے بھائی اور خالہ زاد کو ہمسفر بنایا ہوا تھا جس کی وجہ اپنی نئی نسل کو سرزمین پاکستان کے مختلف رنگ دکھانا تھا۔ راستے میں افضل بھائی نے ملک ریاض کا نیا بحریہ ٹاؤن کراچی بھی دکھایا اور اس سے متصل ڈی ایچ اے بھی۔ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کا الگ الگ کاروباری اکائی ہونے کے باوجود ہمیشہ ساتھ ساتھ ہونے کی کیا وجہ ہے، واللہ عالم۔۔ لیکن ہمیشہ پہلے بحریہ ٹاؤن کامیاب ہوتا ہے اور اس کے بعد برابر والا ڈی ایچ اے۔ بحریہ ٹاؤن کے ونڈر آف دی ورلڈ اور ڈی ایچ اے کا تھیم پارک، دونوں ہی کراچی کی مصروف زندگی کے لیے اچھی خبر ہیں۔ کراچی حیدرآباد موٹروے فی الوقت مخدوش مگر زیر تعمیر ہے، اور خوشی اس بات کی ہے کہ کام بہرحال جاری ہے۔
وری آباد کی چائے کے بارے میں کافی سنا تھا۔ پینے کے بعد واقعتاً بیگم کے ہاتھ کی چائے مجبوری محسوس ہورہی ہے۔ شاید کچھ دن اور لگیں ہمیں واپس اوقات پہ آنے میں۔ نوری آباد سے آگے کراچی حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے باعث راستہ ختم ہونے کا نام نہیں لے آیا تھا تاہم کسی نہ کسی طرح ہم سیاسی گفتگو کرتے، عمران خان کے اچھے برے کاموں کو زیر بحث لاتے اور میاں صاحب کی اگلی حکومت کے امکانات کو جانچتے ٹنڈو الہہ یار پہنچ ہی گئے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ سندھ کی تخیلاتی منظر کشی جو میڈیا کے ذریعے ہمارے اذہان میں بٹھائی گئی ہے وہ یکسر مختلف ہے اس حقیقت سے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ حیدرآباد سے ٹنڈو الہہ یار کو جانے والی سڑک دیکھ کر چند لمحوں یقین نہ آیا کہ یہ سندھ ہے۔ دونوں جانب سبزے سے مزین یہ سڑک اسلام آباد میں H9 اور شفاء ہسپتال کو ملانے والی درختوں میں چھپی شاہراہ کی یاد دلاتی ہے۔ حیدرآباد سے ٹنڈو الہہ یار میاں منظور بھائی کے گھر تک یہ سڑک ایسی ہی رہی۔
بچپن سرحد اور جوانی ابتداء میں پنجاب اور بعد ازاں امارات میں گزارنے کے بعد نتیجہ یہ تھا کہ پٹھان اور عرب دونوں ہی مہمان نوازی میں اول درجہ رکھتے ہیں۔ میاں منظور اور منصور نظامانی کی محبت اور خلوص دیکھ کر مجھے اپنی رینکنگ پہ نظر ثانی کرنی پڑی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سندھی بھی اسی درجے کے مہمان نواز ہیں جس کے لیے پٹھان اور عرب مشہور ہیں۔ مہمان نوازی کے سلسلے کی ایک اور کڑی اجرک کا اجرا تھا۔ نماز جمعہ کے فوری بعد منظور صاحب نے بڑے اہتمام کے ساتھ ہمیں سندھی ٹوپی اور اجرک کے روائتی تحائف سے نوازا۔ اس کے فوراً بعد ہم منصور نظامانی کے ڈیرے پہنچے جہاں روائتی سندھی نظامانی کھانا ہمارا منتظر تھا۔
بقول کسی دانا، دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو جینے کے لیے کھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو کھانے کے لیے جیتے ہیں۔ برجیل ہسپتال ابو ظہبی کے ڈاکٹر جارجی تھامس کے مطابق میرا کولیسٹرول لیول ان کے کیریئر اور ہسپتال کی تاریخ میں ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ یعنی ہمارا تعلق دوسری طرح کے لوگوں میں سے ہے جن کا جینا ان کے کھانے کے لیے ہوتا ہے۔ دوران سفر میں ہمیشہ علاقائی طعام کو پاکستانی پکوان پر فوقیت دینے کا عادی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ طرح طرح کے پکوان میری زبان سے ہوتے معدے کی ذینت بنتے رہتے ہیں۔ یہ تمام تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کے واللہ العظیم نظامانیوں نے جو سبزی ہمیں کھلائی، ویسا ذائقہ نہ تو نانی کے ہاتھ پکنے والے بارہ مصالحہ جاتی پکوان میں ملا اور نہ ہی برج العرب، شاطر حسن یا ابن حمیدو میں۔ یہ بالکل الگ انداز میں پکی مختلف سبزیاں تھیں جیسے کدو، آلو کی بھجیا، بھنڈی وغیرہ جنہیں انتہائی کم تیل میں پکایا گیا تھا۔ ساتھ چکی کے آٹے کی روٹی اور ایک مہربان ہر خالی ہوتے جام کو چھاج سے بھرنے کو تیار۔ فَبِأَيِّ آلاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ؟
ٹنڈو سومرو میں واقع نظامانیوں کے ڈیرے سے چند کلومیٹر دور ہی ان دوستوں کے کئی ایکڑ پر مبنی کیلے کے باغات تھے۔ کھانا کھاتے ہی میزبان ہمیں ان باغات کی جانب لے چلے۔ باغات کے عین وسط میں ایک ٹیوب ویل اور اس سے متصل پانچ سے ساڑھے پانچ فٹ گہرا ایک دیسی سوئمنگ پول واقع تھا۔ حکم ملا کے کسی بھی باغ میں گھس کے لباس تبدیل کریں اور دیسی پول میں غوطہ لگائیں۔ سچ پوچھیے تو ہم شہری چوزوں کے لیے بغیر چار دیواری کپڑے بدلنا ایک چیلنج سے کم نہ تھا البتہ اس دن ہمیں کیلے کے پتوں اور درختوں کے غیر روایتی استعمال بھی سمجھ میں آئے۔ باغ کے تھوڑا اندر جاتے ہی آپ کو سوائے کیلے کے درختوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ بہ الفاظ دیگر، چار دیواری کا احساس ہمیں کسی نہ کسی طرح اس باغ میں بھی مل ہی گیا۔
زیریں جامے بدل کے جو ہم نے تالاب میں داخل ہونے کا قصد فرمایا تو تالاب موجودہ سیاست سے شاید کسی قدر آشنا "گو معاز گو" کا نعرہ بشکل ٹھنڈے یخ پانی کی صورت میں لگاتا ہم سے گویا ہوا۔ ہم نے مثل میاں صاحب کی اینٹی دھرنا پالیسی شروعات تھوڑی پس و پیش سے کی مگر بعد ازاں دھرنے کی طرح یخ پانی کو نظر انداز کرتے غوطہ زن ہو ہی چلے۔ اگلے دو گھنٹے ہم نے قدرت کا سبزہ، ٹھنڈک اور ہوا کا مزہ لیتے گزارے۔ یہاں میاں منظور بھائی کے نو عمر لڑکے اور اس کی تیراکی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی کیونکہ کم از کم میں تیس کے پیٹے میں حالیہ دخول کے باوجود فن تیراکی سے نابلد ہوں۔ برخوردار "ادھر ڈوبے ادھر نکلے" کا عملی نمونہ تھے۔
تالاب سے نکلتے ہوے ہمارے چہروں پہ چائے کی طلب ہمارے میزبان نظامانیوں نے فوری بھانپ لی۔ افضل بھائی مجھے اور میرے دو ساتھیوں کو لیتے ہوے پیادہ ایک اور چھوٹے سے حجرے کی جانب رواں ہوے۔ مطلوبہ مقام پہ جو پہنچے تو وہاں ایک سندھی چاچا سے ملاقات ہوئی جن کے ہاتھ کی چائے بخدا زندگی کی بہترین چائے میں شمار کرتا ہوں۔ چاچا کو تصویر کھنچوانے کا بہت شوق تھا۔ 50 mm پورٹریٹ لینے خاص چاچا کے عکس کو کیمرے میں بند کرنے کی غرض سے لگا کے جو چاچا کو کہا Smile تو بزرگ نے وی کھلکھلاتا قہقہہ لگایا کہ جس کی بازگشت قارئین اس تصویر سے سمجھ سکتے ہیں۔
اس حجرے کی ایک اور اہم یادداشت جو شاید میں کبھی نہ بھول سکوں، وہ یہاں کی ہوا اور اس کے ردعمل میں پیڑ پتوں کا ایک خاص سُر جو مظفر آباد میں پی سی ہوٹل کے عین نیچے واقع آرمی میس میں دریائے نیلم کے بہاؤ کی یاد دلاتا تھا۔ ایسی ہی ایک اور یادداشت سوات میں خوارزہ خیلہ کے مقام پہ دریائے سوات کی مسحور کن آواز بھی تھی۔ افضل بھائی اور میرا اتفاق تھا کہ اس مقام کی یاد ہمیں کراچی سے ابو ظہبی تک ستائے گی۔
چائے ختم کر کے ہم نے اپنے نظامانی دوستوں کا فی الوقت شکریہ ادا کیا اور منظور بھائی کے گھر کو نکل دیے۔ گھر پہنچ کے نہانے دھونے کے بعد میزبان کا حکم آیا کہ کچھ قیلولہ فرما لیں، رات کو مچھلی کے شکار کا قصد ہے۔ یہ شکار ہمارے اس سفر کے اصل مقاصد میں سے ایک تھا اور اس کی وجہ میرا ابو ظہبی میں اور منظور بھائی کا نڈو الہہ یار میں رہتے ہوئے مچھلی کے شکار کا سدید شوقین ہونا تھا۔ مجھے یہ شوق ورثے میں اپنے والد سے ملا تھا۔ بچپن میں میرے بھائی کو سانس لینے میں دشواری یعنی Asthma کا مرض تھا۔ ابا مرحوم اس کے لیے تازہ گرم بام مچھلی پکڑنے چمکنی کے قریب ایک مقام پہ جاتے جہاں پل کے نیچے گھنٹوں بیٹھنے کے بعد ڈیڑھ سے دو فٹ لمبے 3 سے 4 عدد شکار ہمارے اگلے ہفتے کے لیے کافی ہوتے۔ مچھلی کے شکار کی لت ہمیں وہیں چمکنی کے قریب سے پڑی، منظور بھائی خدا جانے کہاں سے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے۔
قیلولہ کے بعد میاں صاحب ہمیں چھت پہ لے گئے۔ یہاں کچھ دیر انتظار کے بعد میاں صاحب کے نظامانی دوستوں کے ساتھ کھانے کا دور شروع ہوا۔ ہر 15 منٹ بعد ایک نیا پکوان رکھ کے اسے کھانے پہ اصرار۔۔۔ یہ وہ طریقہ تھا جس سے میاں صاحب نے ہمیں ایک اور قیلولے کے لیے تیار کر دیا۔ اگلا پروگرام چونکہ شکار کا تھا لہزا نیند کی حسرت دل میں لیے ہم شکار کو نکل دیے۔
اندرون سندھ کے ڈاکوؤں کے بارے میں ہمیشہ سے سنتے آئے تھے۔ سندھ جا کہ ایسی کسی Myth کو حقیقی نہ پا سکے۔ رات 1 بجے کے قریب 2 گاڑیاں اور ایک موٹر سائیکل نصف گھنٹے کی مسافت پہ واقع مچھلی کے وسیع فارم کی جانب روانہ ہوے۔ اندھیرہ اور ویرانیت دیکھ کے میزبان کی جانب تحفظ کا سوال اٹھایا تو منظور بھائی گویا ہوے کہ آج تک تو الحمد للہ ایسا کوئی واقعہ درپیش نہیں آیا۔ راستے میں جس بہادری سے بالکل ویران اندھیرے مقام پہ اعلی نسلی چائے کا دور چلا، اس کے بعد منظور بھائی کی بات پہ دل سے ایمان بھی لے آئے۔
بہرحال تھوڑا آگے جا کہ گنے کے کھیت کے قریب دونوں گاڑیاں اور موٹر سائیکل رک گئے۔ ہم نے آس پاس نظر دوڑائی مگر پانی نظر نہ آیا۔ کچھ تھا تو محض 6 فٹ گنے کے کھیت، جس کے بیچوں بیچ ایک باریک سی پگڈنڈی کے آثار تھے۔ اس نحیف راستے کی چوڑائی بس اتنی تھی کہ ایک آدمی مشکل سے گزر سکے۔ تھوڑے توقف کے ساتھ سوچیے گا، کہ ہم 3 شہری چوزے، آدھی رات کا وقت، اندھیرا، گنے کے کھیت اور اس کے عین وسط میں ایک زبردستی کا راستہ۔ مجھے سلیمانکی ہیڈورکس میں آرمی میس اور رینجرز میس کے درمیان کا وہ سفر یاد آگیا جو قریب ایسے ہی ماحول میں جاری تھا۔ ہم پیادہ رواں دواں تھے کہ۔ اچانک میرے دو بہادر فوجی ساتھیوں میں سے ایک چونکتے ہوے بولاا: "سر اے کی آ؟"۔۔ اس سے پہلے کہ میں پوچھتا کہاں، کدھر۔۔۔ دوسرے فوجی بھائی جوابدہ ہوے۔۔"اؤے سانپ اے"۔۔ اس کے بعد مجھے فوجی بوٹوں کے غیر سیاسی فوائد میں سے ایک فائدہ سمجھ میں آیا۔ جوان کے بچوں نے دیکھتے ہی دیکھتے جوتوں سے سانپ مار ڈالا۔ یہ سب کچھ اتنا تیزی سے ہوا کہ جب تک میں لفظ سانپ سنتے ہی پیچھے ہٹا، اگلے اسے اگلے جہاں پہنچا چکے تھے۔ ان الحکم الا اللہ۔۔۔
میاں منظور بھائی سے کوئی 200 میٹر کے فاصلے پہ باقیوں کی رہنمائی کرتا ہوا میں فوجیوں کو بہت مس کر رہا تھا۔ خیر کوئی نصف کلومیٹر فاصلہ گنے کے کھیتوں کے اندر طے کرنے کے بعد کوئی 15 فٹ کا کنارہ سامنے آیا جس کے بالکل سامنے گہرا پانی تھا۔ منظور بھائی نے وہاں کرسیوں کا ایسا بندوبست کیا ہوا تھا کہ افضل بھائی تو بیٹھتے ہی گھوڑے بیچنے لگے اور کچھ دیر میں گہری نیند میں جا بسے۔ منظور بھائی، منصور نظامانی، میرا بھائی اور کزن، اور میں۔۔ اگلے 3 گھنٹے مچھلی کی منتیں کرتے رہی۔۔۔ آجا۔۔ آجا۔۔ مچھلی رانی دو بار میاں منظور کا ہاتھ زخمی کرنے اور کئی بار منصور کے کانٹے میں پھنس کے قریب آتے ہی واپس چلی جاتی۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ ہمیں بھی نیند آگئی اور آنکھ تب کھلی جب سامان واپسی کے لیے تیار تھا۔ منصور نے وہیں بیٹھ کے شکار جاری رکھا جس کا صلہ اللہ نے اسے صبح تک 3 بڑے سول کے دانوں سے نواز کر دیا۔ ہم نے منصور سے اگلی ملاقات تک اجازت مانگی، اور میاں صاحب کے گھر واپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر کچھ سوچنے بولنے کی ہمت اپنے زوال پہ تھی، لہزا سر تکیے سے ٹکایا اور نندیا پور کی وادی کے ہو لیے۔
ارادہ صبح آٹھ بجے نکلنے کا تھا مگر کمبخت آنکھ پونے نو بجے کھلی۔ افضل بھائی پہلے ہی اٹھے ہوے تھے اور شاید ہمارے اٹھنے کا انتظار فرما رہے تھے۔ ندامت کے احساس کے ساتھ ہم نے میاں منظور بھائی سے نکلنے کی اجازت کی غرض سے انہیں یاد کیا تو جناب ناشتے بھری طشتریاں ساتھ لیے مہمان خانے میں داخل ہوے۔ مضمون کی طوالت کی طرح میاں صاحب نے بھی ناشتے کے اختصار کے ساتھ خوب زیادتی فرمائی۔ انڈے، ڈبل روٹی، دیسی پراٹھے، چائے، اچار اور جانے کیا کیا۔ خوب کھانے پینے کے بعد بالآخر ہمیں واپسی کی اجازت مل تو گئی، مگر اس شرط پہ کہ دوبارہ آئیں گے اور لمبے دورانیے کے لیے آئیں گے۔ کراچی پہنچ کر وعدہ وفا کرنے کی سر توڑ کوشش کی مگر پشاور اور اسلام آباد کے دوروں اور گھر گرہستی سے سسرال ننھیال تک لوگوں نے پلاننگ تک کا موقع نہ دیا۔
اس مختصر مگر بھرپور سفر سے کم از کم میرے بہت سے اندازے غلط ثابت ہوے۔ آج میں اس بات پہ ایمان لا سکتا ہوں کہ میرے سندھی بھائی انتہائی محبت کرنے والے، بےحد مہمان نواز، امن پسند اور دوست طبیعت رکھنے والے ہیں۔ پانچوں میں سے ایک آدھ انگلی بڑی چھوٹی ضرور ہوتی ہے مگر اس بنیاد پہ آپ پورا ہاتھ بےڈھنگا قرار نہیں دے سکتے۔ اردو سپیکر آبادی کی اکثریت سے جب سنا کچھ الگ سنا لیکن اپنے اس تجربے کی بنیاد پہ پشتونوں اور بلوچوں کی طرح سندھیوں کو بھی پیار کرنے والا پایا۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئی قوم بحیثیت کلی بری نہیں ہو سکتی۔ میرے عزیز دوستوں نے اس یادگار سفر کے ذریعے اس حقیقت پہ یقین کرنے کے لیے ایک اور گہرا تجربہ عنایت فرمایا۔ میں جناب افضل سیتھرمیاں منظور بھائی اور نظامانی خاندان کا انتہائی شکرگزار ہوں جنہوں نے اس سفر کو انتہائی یادگار بنایا۔