بیٹھے بٹھائے کسی وجہ سے دو قصے یاد آگئے۔ دونوں میں کوئی دس برس کا فرق ہے۔ اب اس دس برس سے پتہ چلتا ہے کہ دس برس میں کچھ نہیں بدلا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دس برسوں کے فرق کو بھی دس برس گزر چکے۔
پہلا قصہ میرے سکول کا ہے۔ عابد قاضی کی پشاور صدر میں جی پی او کے سامنے دوکان ہوا کرتی تھی۔ نام اس لیے لے رہا ہوں کہ وہ بندہ تب بھی خرامیوں میں دبنگ تھا اور آخری بار کئی برس پہلے ملا تب بھی۔ دوسرے قصے میں ملوث میرا فرسٹ کزن ہے تاہم اس وقت وہ ایسے حالات میں ہے کہ دنیا و مافیہا اس سے بہت آگے نکل چکے۔ اللہ اس پر رحم فرمائے۔
دونوں کی کہانی بالکل ایک تھی۔ ایک کو چانٹے مارنے والا باپ تو دوسرے کو تھپڑ رسید کرنے والی ماں تھی۔
بقول راویان وکم و بیش یکساں۔۔
"بس جگر۔۔ خواب دیکھ رہا تھا۔۔ فلاں نیچے تھی میں اوپر۔۔ اور بہت مزا آرہا تھا۔۔ ابھی معاملہ عروج پر پہنچا ہی تھا کہ مجھے چانٹے تھپڑ پڑنے لگے۔۔ پینچ*د۔۔ مجھے پہلے ہی شک تھا تو کرپٹ ہے۔ کیا دیکھ رہا ہے خواب میں؟ وہی دیکھ رہا ہے جو سوچتا ہے۔۔ اٹھ۔۔ لعنت ہے تجھ پر۔۔ کیا ہی بدکردار لڑکا ہے تو"
اور پھر چانٹے ہی چانٹے۔ طمانچے ہی طمانچے۔
حضرات و خواتین۔۔
آپ کو ممکن ہے نہ ملی ہو۔ مجھے بہرحال ملی تھی۔ بلوغت کا معاملہ جانتے ہی نہایت فرینک اور مدبرانہ قسم کا بس ایک لیکچر اور پھر۔۔ خدارا اپنی اولاد کو پرسنل سپیس دیجئے اور دیا کیجئے۔ اس وقت ان کا pre frontal cortex بڑھوتری کے پراسیس میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں بہت کچھ اچانک سے نیا دیکھنا سہنا پڑ رہا ہوتا ہے جو انہوں نے بوجہ سیکس ایجوکیشن نہ ہونے کے کبھی سوچنے نہیں دیا گیا۔ ان کے ذہن میں اس وقت "گندی باتیں" اور گناہ ثواب کو لے کر بہت سے مخمصوں میں الجھنیں ہیں جن کا حل نکالنے کے لیے آئیڈیلی آپ کا وہاں ہونا اہم ہے۔
اب سوچیے۔۔ آپ وہاں ہونے کی بجائے ان کا سہارہ ان کا مشیر ان کا راہنما بننے کی بجائے ان کے لیے جلاد بن جائیں؟