اس نے یہاں وہاں دیکھا اور کسی کو نہ پا کر سناٹے میں درخت کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ پہلی گاڑی آکر رکی۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا “چلیں؟”۔ ڈرائیور نے اس کی زبان کی سیاہی دیکھی۔ ایک بار اسے سر سے پیر تک دیکھا اور نفی میں سر ہلا کر چلتا بنا۔ اسے دکھ ہوا۔ بہت دکھ۔ “یہ اچانک سب شریف کیوں ہونے لگے؟”۔ وہ حیران تھا۔ اس کے بعد تین مزید گاڑیاں اس کی سیاہ زبان کی جانب اشارہ کرتے نکل گئیں۔
اب اسے شدت سے حیرت تھی۔ “میری خدمات تو لذت ہی لذت دیتی ہیں، پھر یہ سب باغی کیسے ہوگئے؟ لگتا ہے کوئی سب نئے نئے شریف ہوئے ہیں”۔
اتنے میں ایک اور گاڑی آکر رکی۔ ڈرائیور شکل سے مہذب لگ رہا تھا۔ کھڑکی نیچے کر کے ڈرائیور نے تحکمانہ انداز میں اسے گاڑی میں بیٹھنے کا حکم دیا۔
“واہ۔ ۔ ۔ آج کوئی تگڑا مرد آہن ہاتھ لگا ہے”۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی چلا دی۔
“چاٹو”۔
ڈرائیور نے حکم دیا۔ “یہ ہوئی ناں بات”۔ اس نے دل میں سوچا اور حکم کی تعمیل میں محو ہوگیا۔
جانے کتنی دیر بعد اسے بس کرنے کا حکم ملا۔ گاڑی رکی۔ وہ اترنے کے لیے دروازہ کھول ہی رہا تھا کہ ڈرائیور نے پچھلی جیب سے پسینے میں بھیگے کرنسی نوٹ نکالے اور اس کے ہاتھ میں تھمانے کی کوشش کی۔
اس نے نوٹ جھٹک دیے اور ہاتھ سے منہ پہ لگی بوٹ پالش کے سیاہ نشان صاف کرتے ہوئے کہا: “ہم پیسے کے لیے بوٹ نہیں چاٹتے صاحب، ہمیں بوٹوں سے محبت ہے”۔
یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اتر گیا۔ چند فرلانگ آگے بڑھا۔ جیب سے موبائل میں فرانسیسی رسم الخط استعمال کرتے ہوئے اردو سٹیٹس ڈالا:
“کراس بارڈر ٹیررزم کرنے والے ہماری فوج کے قیمتی ترین اثاثے تھے، ہیں اور رہیں گے۔ نواز شریف غدار ہے۔ عمران ولی اللہ ہے۔ ”