احسن اقبال پہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ کس نے کروایا، کیوں کروایا اسے چھوڑیے۔ ایک ڈائی ہارڈ عمرانی پنکھے کی سازشی تھیوری سنیے۔ پہلا فقرہ پنکھے کا تھا۔ سوچ کی باقی عکاسی ہم نے خود کر لی۔ پڑھیے اور سر دھنیے۔
میں کہتا ہوں ن لیگ نے خود گولی چلوائی۔ بلکہ میری اطلاعات کے مطابق تو گولی چلانے کی منظوری باقاعدہ اجلاس میں احسن اقبال نے خود دی۔ فیصلے سے پہلے ساڑھے تین گھنٹے اس بات پہ بحث ہوئی کہ گولی کا نشانہ کون بنے گا۔ سعد رفیق نے کھل کے بتایا کہ میرے بھیجے ہوئے لوہے کے آدھے چنے چیف جسٹس نے واپس بھجوا دیے تھے۔ آج کل وہ میرے ساتھ انہی چنوں سے بنٹے کھیلنے میں مصروف ہیں۔ چونکہ میں ایک کھیل میں مصروف ہوں لہذا یہ گولی والا کھیل کوئی اور کھیلے۔ یہ سن کر اجلاس کے تمام ممبران میاں صاحب کی جانب دیکھنے لگے۔ میاں صاحب اجلاس سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ “بس اب سمجھ آگئی کہ مجھے کیوں نکالا”۔ اسحاق ڈار جو تب تک سکائپ سیشن پہ آن لائن تھے، اچانک ڈسکنکٹ ہوگئے۔ بعد ازاں شاہد خاقان عباسی کو ان کا واٹس ایپ موصول ہوا جس کے مطابق اسحاق ڈار کے روم میٹ نے ٹورینٹ لگا لیا تھا اور یوں سکائپ کال بند ہوگئی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عباسی خاندان کی قربانیاں گنواتے ہوئے مزید قربانیاں دینے سے انکار کیا اور اجلاس چھوڑ گئے۔ آخر میں شہباز شریف اور احسن اقبال اکیلے رہ گئے۔ اجلاس کی کاروائی بیان کرنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ اس لمحے احسن اقبال نے شہباز شریف کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ شہباز شریف انگلی اٹھائے جذبات میں مغلوب گویا ہوئے “میں تمہاری جگہ گولی ضرور کھاتا مگر آج کل میں گالیاں اتنی کھا رہا ہوں کہ گولی کی گنجائش نہیں”۔ اس کے بعد احسن اقبال نے خود ہی اپنے آپ پہ گولی چلانے کی منظوری دی۔ ذرائع کے مطابق اس کام کے لیے متحدہ قومی موومنٹ سے شوٹر مستعار لیا گیا اور اسے نقشہ بنا کر بتلایا گیا کہ گولی سیدھے بازو سے ہوتی ہوئی کس طرح سے ناف کے قریب چھوتی گزرنے چاہئے۔ اس موقع پہ فاروق ستار بھائی نے یقینی دہانی کروائی کہ شوٹر ریورس سوینگ کا ماہر ہے لہذا وہ احسن اقبال کو گولی اس طرح سے مارے گا کہ سانپ بھی بچ جائے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے۔
(“ٹونی بیٹا۔ ۔ ۔ کھانا کھا لو”)
(“جی مما آیا”)
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گولی نکالے جاتے ہوئے نعرے لگا رہی تھی، “مجھے نکالا؟”، “یور آنر ہیو آ ہارٹ” اور “یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے۔ ۔ ۔ ”۔ ملک بھر کے معروف ترین تجزیہ کار یعنی اے آر وائے، بانوے نیوز اور حال ہی میں مشرف بہ افواج ہوئے جیو کے چیمپین اینکر اس بات پر متفق ہیں کہ یہ گولی ن لیگ نے خود چلوائی۔ نیز تمام دانشورانِ امت کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ اگر گولی خود نہیں چلوائی تو بھی غلطی ن لیگ ہی کی ہے۔ استفسار پہ جواب آیا “ساڈی مرضی”۔ دوسری بار پوچھنے پہ پتہ چلا کہ تمام صحافی برادری کا ماننا یہی ہے کہ ممتاز قادری نامی دہشت گرد کو پھانسی دینے کے حق میں ہونے کے باوجود یہ کوئی پبلک میں کرنے کی بات نہیں۔ بیشک سلمان تاثیر ٹھیک تھا کہ توہین رسالت کے قانون پہ نظر ثانی ہونی چاہئیے لیکن پھر بھی اس نظر ثانی کا گماں بھی کیونکر ہوا؟ دوسری سیاسی جماعتوں سے دستخط لینے کے بعد توہین رسالت سے “غیر متعلقہ” قانون کو یکسر بدل ڈالا گیا؟ بھیا کتنے ہی دن توہین رسالت کا قانون غائب رہا، پولیس مقدمے درج کرنے میں پس و پیش کرتی رہی۔ دستخط تو سب نے کیے تھے لیکن توہین رسالت کے مرتکب احسن اقبال ہی۔
(“ٹونی کھانا کھا لے”)
(“آیا امی بس ابھی آیا یہ کمنٹ کر کے”)
اس قماش کے تمام حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ ن لیگ نے حملہ خود کروایا۔ چیف جسٹس ٹھیک کہتے ہیں۔ ان کا جرم اتنا مکمل ہوتا ہے کہ ثابت ہی نہیں ہوتا اور ہمیں جے آئی ٹی بٹھا کر اندازے لگانے پڑتے ہیں۔ یہ پٹواری اتنے کایاں ہیں کہ نعیم بخاری پہ بھی انہوں نے حملہ کیا۔ ان کا طریقہ واردات اس قدر بہترین ہے کہ نعیم بخاری کو بھی پتہ نہیں چلا کہ اسے نہاری لیگ نے زخمی کیا۔ بیچارہ آج بھی ماننے سے انکاری کے کہ مار پڑی حالانکہ میں ایک ٹائیگر ایک جیتا جاگتا ٹائیگر حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ نعیم بخاری پہ حملہ گلو بٹ نے ہی کیا۔
اس کے علاوہ مودی کے اس نواز بدبخت یار پہ بھی۔ ۔ ۔ ۔
(ٹونی منحوس کل موہے آخری بار کہہ رہی ہوں آکر کھانا تھور لے ورنہ خود سونگھتا پھریو)۔